تاریخ ساز شخصیت سیٹھ عابد

سوچ رہا تھا کہ کس عنوان پر قلم کشائی کروں، ملکی سیاست کا نوحہ لکھوں، بیورو کریسی کے کردار پر کاغذ سیاہ کروں، قلم سے مہنگائی کا ماتم کروں یا سرکاری ہسپتالوں میں نا پید طبی سہولیات کی وجہ سے سسک سسک کر مرنے والوں کی عکاسی کروں، اس دوران دفتر میں نصب ٹی وی سکرینز پر نظر پڑی تو چینلز پر بریکنگ نیوز نشر ہو رہی تھی کہ تاجر شیخ عابد حسین المعروف سیٹھ عابد 85 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے، خبر سنتے ہی عرصہ قبل بزرگوں کے زبانی سنی سیٹھ عابد کے طلسماتی کردار کی کہانی ذہن میں گردش کرنے لگی۔
جب 1974ءمیں دشمن ملک بھارت ایٹم بم کا تجربہ کر کے ایٹمی طاقت بنا تو اس وقت ملک پر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹم بم بنانے کا نعرہ لگا کر دنیا بھر کے حکمرانوں بالخصوص ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک کے سربراہان کو ورتہ حیرت میں ڈال دیا، پاکستان اس وقت معاشی مسائل کا شکار ہونے کے ساتھ عالمی دباﺅ اور اقتصادی پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا، ان حالات میں ایٹم بم بنانا ایک دیوانے کا خواب نظر آ رہا تھا، ایٹم بم بنانے کےلئے پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ یورنیم، سینٹری فیوز اور ڈیزائن کےلئے عالمی سطح پر بلیک مارکیٹ تک رسائی حاصل کرے، یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ اس وقت عالمی مارکیٹ پر راج کرنے والوں میں بابا بلھے شاہ کی نگری قصور کا ایک پاکستانی شہری شیخ عابد حسین بھی شامل تھا، جس کا عالمی بلیک مارکیٹ میں طوطی بولتا تھا۔
بقول راوی اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹم بم کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلئے بلیک مارکیٹ میں سونے کا کاروبار کرنے والے سیٹھ عابد حسین سے رابطہ کیا تو اس نے یہ ذمہ داری بغیر کسی معاوضہ کے رضاکارانہ طور پر قبول کر لی، اور سیٹھ عابد نے اسے احسن طریقے سے نبھایا بھی، اس نے ایٹمی مواد سمگل کر کے پاکستان لا کر ملکی سالمیت کےلئے وہ کردار ادا کیا جو ایک محب وطن اپنے ملک کےلئے کرتا ہے۔
راوی سیٹھ عابد کے ماضی کے بارے میں کہتے ہیں کہ 1958ءمیں کسٹم حکام نے اسے کراچی ایئر پورٹ پر 31 سو تولہ سونا سمگل کرتے ہوئے پکڑ کر کسٹم ایکٹ کے تحت کارروائی کی لیکن وہ اتنا بااثر تھا کہ چند ہفتوں بعد جیل کی سلاخوں سے رہا ہو گیا۔ پھر شیخ عابد حسین قصور کے قریب سرحد پر واقع گاﺅں میں رہنے لگا کہ امرتسر پولیس جسے وہ مطلوب تھا کو مخبری ہو گئی تو وہ چھاپے سے کچھ دیر قبل لاکھوں روپے مالیت کی 44 سونے کی اینٹیں جن کا وزن 11 کلو گرام تھا چھوڑ کر چھلاوے کی طرح غائب ہو گیا۔ کہتے ہیں عابد حسین بہت چالاک، ہوشیار، ذہین و فتین تھا، وہ سونے کے کاروبار کا بادشاہ (گولڈ کنگ) تصور ہوتا تھا، انٹر پول میں نام شامل ہونے کے باوجود وہ مختلف طریقوں سے سونا سمگل کر کے پاکستان لاتا رہا۔ 1950ءمیں اس نے قصور کو خیر آباد کہہ کر کراچی میں ڈیرہ ڈال لیا اور وہاں سونے کا کاروبار شروع کر دیا۔ ساتھ وہ سونے کی سمگلنگ بھی کرتا اور کرواتا رہا۔ اس دوران کئی بار پر چھاپے پڑے مگر وہ ہر بار بچ نکلتا۔ کیونکہ اس کے ہاتھ بہت لمبے تھے، 1977ءمیں عابد حسین کے چرچے اخبارات میں ہونے لگے، وہ انٹر پول میں نام شامل ہونے کے باوجود اکثر دلی، دبئی، لندن اور دیگر ممالک کا سفر کرتا رہا، اخبارات اسے سیٹھ عابد گولڈ کنگ لکھنے لگے، اس کا سرمایہ پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی پھیلا ہوا تھا، وہ وقت کے حکمرانوں، بیورو کریٹس، سیاستدانوں کے ساتھ اپنے مستحکم تعلق بنا چکا تھا، سونا کی سمگلنگ کے لئے اس کے تربیت یافتہ درجنوں افراد اس کے لئے کام کر رہے تھے، جبکہ وہ ماہی گیروں کے ذریعے بھی دوبئی کے راستے سے سونا سمگل کراتا تھا، ایک رپورٹ کے مطابق ماہی گیر قاسم بھٹی سے مل کر سیٹھ عابد نے 1980ءمیں بھارت کی سونے کی مارکیٹ پر اجارہ داری ختم کر دی، اب اس کا سونے کی سمگلنگ کا نیٹ ورک کراچی سے دہلی، لندن، دوبئی سمیت کئی ممالک تک پھیل چکا تھا، لا تعداد ایجنٹ اس کے لئے کام کر رہے تھے سیٹھ عابد کے انڈیا میں بھی سونے کی سمگلنگ کے حوالے سے گہرے رابطے تھے۔
سونے کی سمگلنگ کے حوالے سے لا تعداد داستانیں سیٹھ عابد کے ساتھ منسوب تھیں اور ر ہیں گی۔ سونے کی سمگلنگ سے ہی اس کا شمار پاکستان کے بڑے دولت مندوں میں ہوا۔ 1974ءمیں لاہور میں چھاپے کے دوران پولیس نے 60 لاکھ کی گھڑیاں، سونا، گاڑیاں، گھوڑے اپنی تحویل میں لے لئے، عرصہ تک سیٹھ عابد حکومتی ایوانوں سے لے کر عام آدمی کے زیر بحث اور اخبارات کی زینت بنا رہا۔ سیٹھ عابد نے ضیاءالحق کی عسکری حکومت کے دورمیں سرنڈر کر کے اپنے اثاثوں کی واپسی کےلئے بارگیننگ کی، جس میں وہ کامیاب رہا۔ اسی سال موصوف نے ملک کے دو بڑے سرکاری ہسپتالوں کےلئے بھاری رقم عطیہ کی۔ وہ 1985ءمیں پارلیمنٹ میں بھی زیر بحث آیا، 1986ء میں حکومت نے 3100 تولہ سونا سیٹھ عابد کو واپس دینے کا حکم دیا جو 1958ءمیں اس سے کراچی ایئر پورٹ پر پکڑا گیا تھا۔
سیٹھ عابد نے پاکستان کو ایٹمی بم بنانے میں مدد دینے کے ساتھ حمزہ فاﺅنڈیشن جیسے غریب پرور ادارے کو پروان چڑھایا اور شوکت خانم ہسپتال کےلئے بڑی رقم عطیہ کی، اب سیٹھ عابد کی زندگی بدل چکی تھی، وہ اپنا سرمایہ فلاحی کاموں پر خرچ کر رہا تھا مگر وہ نمود و نمائش کا خواہشمند نہ تھا، اس نے اپنے فلاحی کاموں کی کبھی تشہیر نہ کی اور اگر کوئی ایسا کرنا چاہتا تو وہ اسے منع کر دیتا۔ سیٹھ عابد کی جائیدادیں پاکستا ن، دوبئی، ورجن آئرلینڈ سمیت دیگر ممالک میں ہیں، اسی بناءپر اس کا نام پانامہ لیکس میں بھی آیا، لیکن سونے کے اس سمگلر نے بغیر معاوضہ کے ایٹمی مواد سمگل کر کے پاکستان کو لا کر دے کر محب وطن ہونے کا ثبوت دیا ہے، جس سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا اور اس ایٹمی طاقت سے دشمن ممالک بالخضوص بھارت کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ اس طرح وہ ملک و قوم کا مسیحا تھا اور رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں