تعلیمی اداروں کا بگڑتا ماحول اور ہمارا کردار

تحریر:ثنا آغا خان
لاہور کی ایک یونیورسٹی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو ہالی وڈ اور بالی وڈ کے ذریعے پھیلائے جانے والے کلچر کا شاخسانہ تھا اور جس کا اپنے حالیہ انٹرویوز میں وزیراعظم عمران خان نے بار بار ذکر کیا واقعہ جس کی وڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر جاری ہوئیں کچھ یوں ہے کہ مغربی لباس میں زیب تن ایک طالبہ ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ تھامے گھٹنوں کے بل ایک لڑکے کے سامنے بیٹھ کر ا±سے وہ گلدستہ پیش کرتی ہے جس کا مقصد ا±س بچی کی طرف سے لڑکے کو Propose کرنا ہے اس کے ساتھ ہی لڑکا لڑکی کو کھڑا کرتا ہے اور دونوں گلے لگ جاتے ہیں اور یہ سین یونیورسٹی میں موجود درجنوں دوسرے طلباءو طالبات کے درمیان فلموں کی طرز میں موبائل کیمروں میں فلمایا بھی گیا اچھا ہوا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایکشن لیتے ہوئے دونوں کو یونیورسٹی سے نکال دیا یہ واقعہ ہماری حکومت، ہمارے معاشرے، ماں باپ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی بند آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے یہ خطرے کی وہ گھنٹی ہے جسے اگر مزیدنظر انداز کیا گیا تو ہماری رہی سہی سماجی معاشرتی اور مذہبی اقدار کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے گا اور ہمیں ا±س گندگی کی طرف دھکیل دیا جائے گا جس کا شکار آج کل مغربی معاشرہ بن چکا اور جس کی نقالی میں بھارت بھی آگے نکل چکا اسکول، کالج، یونیورسٹیوں میں بچے بچیاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں لیکن جس تیزی سے بالخصوص پرائیویٹ اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ماحول مغربی کلچر سے مرعوب ہو کر آزاد خیالی کی طرف جا رہا ہے وہ اِن اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے علاوہ پورے معاشرے کے لئے بہت خطرناک ہے جس کے تدارک کے لئے فوری اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں اِس بگڑتے ماحول کو دیکھ کر تو بڑی تعداد میں والدین اِس فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے بچے بچیوں کو ایسے تعلیمی اداروں میں بھیجیں بھی کہ نہیں؟ تعلیمی ادارے بچوں کی تربیت کی بجائے اگر شرم و حیا کو تار تار کرنے اور مغربی کلچر کو پھیلانے کا سبب بن جائیں تو پھر ایسی تعلیم معاشرے کی تباہی کی وجہ بن جاتی ہے۔ ایک اسلامی ملک میں اصولاً تو لڑکے لڑکیوں کے لئے تعلیمی ادارے علیحدہ علیحدہ ہونے چاہئیں لیکن اگر کسی مجبوری کی بنیاد پر ہر جگہ ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو یہ حکومت اور تعلیم اداروں کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ ایسے ماحول کی فراہمی کو یقینی بنائیں جہاں بچے اپنی تعلیم پر توجہ دیں نہ کہ تعلیمی اداروں کو ہالی وڈ اور بالی وڈ کے کلچر کے پھیلاﺅ کا ذریعہ بنائیں یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں کو فیشن کا گھر نہ بنایا جائے بچوں بچیوں دونوں کے لئے اپنے معاشرتی و دینی اقدار کے مطابق مہذب لباس پہننے کو لازمی قرار دیا جائے اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ تعلیمی اداروں میں کسی قسم کی نازیبا حرکت کو برداشت کرنے کے متعلق زیرو ٹالرنس ہو حال ہی میں گورنر خیبر پختونخوا ہ کی طرف سے صوبہ کی کچھ اہم جامعات میں لڑکے لڑکیوں کے لئے (Dress Code ) مخصوص یونیفارم کا لازمی کیا جانا ایک احسن اقدام ہے تمام وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ پبلک اور پرائیویٹ دونوں قسم کی جامعات کے ماحول کو اپنے دینی اور معاشرتی اقدار کے مطابق سختی سے ڈسپلن کرنے کے لئے ضروری ہدایات جاری کریں تاکہ جو تماشا ہم نے لاہور کی یونیورسٹی میں دیکھا وہ کہیں
معمول نہ بن جائے مغربی کلچر پھیلانے والوں کی سختی سے حوصلہ شکنی کرنی چاہئے اور اس میں ریاست کا کردار بہت اہم ہے لیکن افسوس کہ وزیراعظم عمران خان کا بار بار اسلام اور ریاستِ مدینہ کی بات کرنے کے باوجود ا±ن کی ان باتوں اور وعدوں کا عملی طور پر کوئی عکس نظر نہیں آتا ریاست کی ذمہ داری ہے کہ آئینِ پاکستان کے مطابق وہ معاشرے میں ایسا ماحو ل پیدا کرے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو اس آئین کے ہم سب پابند ہیںمیڈیا ہو، سیاسی جما عتیں ہوں، حکومت ہو، پارلیمنٹ ہو، عدلیہ ہو یا کوئی اور ریاستی ادارہ ہو سب کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائے نہ کہ اس کے خلاف کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں