افغانستان میں خانہ جنگی سے پاکستان میں بھی سول وار کا خدشہ ہے

اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اب مزید افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔ امریکی نشریاتی ادارے کو دئے گئے ایک انٹرویو میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے افغانستان سے متعلق بات کی اور کہا کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ افغانستان میں سول وار ہوئی تو یہ بہت بھیانک ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ 10 ہزار جنگجو افغانستان بھیجنےکا الزام احمقانہ ہے، افغانستان اس کے ثبوت کیوں نہیں دیتا؟ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں، افغان مہاجرین کے کیمپ ہیں۔افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں اور سیاسی تصفیہ ہی مسئلہ افغانستان کا حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان مسئلے کا فوجی حل ڈھونڈتا رہا اور امریکہ افغانستان کا فوجی حل نکالنے میں ناکام رہا۔

نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا تو پاکستان میں خودکش حملے بڑھ گئے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں ایسی حکومت ہونی چاہیے جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو اور اگر انتخابات میں تاخیر ہوتی تو طالبان بھی اس کا حصہ بن سکتے تھے۔ اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد طالبان سے مذاکرات نہیں کیے۔ عمران خان نے کہا کہ امریکہ کو اڈے دینے سے پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنے گا جبکہ طالبان خود کو افغانستان میں فاتح سمجھ رہے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی امداد ہمارے نقصان سے بہت کم ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے سے ہمارا 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے کہ افغانستان کے سیاسی حل کے لیے دباؤ ڈالیں، افغانستان میں امن چاہتے ہیں اورکسی محاذ آرائی کاحصہ نہیں بننا چاہتے کیونکہ پاکستان نے افغان جنگ کا حصہ بن کر 70 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں حالات خراب ہوئے تو اس کا اثر پاکستان پر پڑے گا اور اگر خانہ جنگی ہوئی تو افغان مہاجرین پاکستان کا رخ کریں گے لیکن پاکستان اب مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور ہم عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جائے۔ عمران خان نے کہا کہ میں نے افغانستان کے فوجی حل کی مخالفت کی اور مجھے اس بیان پر امریکہ مخالف اور طالبان کا حمایتی سمجھا گیا۔ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں