قربانی اسلام میں بھی جائز ہے، نور مقدم نے خود کو قربانی کے لیے پیش کیا

اسلام آباد : ڈسٹرکٹ اینڈ سین کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی۔اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کے تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی ہے تاہم ملزمان نے صحت جرم سے سے انکار کیا ہے۔نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ ان کے والد ذاکر جعفر نے نور مقدم سے جان چھڑانے کے لیے کہا تھا۔

ظاہر جعفر نے یہ بات ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہی۔ سماعت کے دوران ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ یہ میرا وکیل نہیں ہے مجھے بولنے کا موقع دیا جائے۔ جب کہ وکیل رضوان عباسی نے کہا کہ ملزم ذاکر جعفر کا وکیل ہوں۔ملزم ظاہر جعفر نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ ایک فون کال کرنا چاہتا ہوں مجھے اجازت دیں۔ میں اس کیس کو مضبوط کرنے کے لیے کال کرنا چاہتا ہوں۔

وکیل رضوان عباسی نے کہا کہ ملزموں پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے شواہد ناکافی ہیں۔۔وکیل رضوان عباسی سے سوال کیا گیا کہ شریک ملزم کون ہیں۔ملزم ظاہر جعفر نے الزام لگایا کہ میرے ساتھ کھڑے ملزموں نے اس کو مارا،آپ چارج لگا رہے ہیں یا نہیں۔ملزم افتخار نے عدالت کو بیان دیا کہ ان کی دوستی دو سال سے تھی،آنا جانا بھی تھا،مجھے کیا پتہ تھا معاف کر دیں۔

ملزم ظاہر جعفر نے مزید کہا کہ جج صاحب میں نے یہ کیا تھا، پستول میرے باپ کا ہے۔قربانی اسلام میں بھی جائز ہے،نور مقدم نے خود کو قربانی کے لیے پیش کیا۔مجھے گھر میں قید کر دیں ، جیل میں مارتے ہیں۔پھانسی دے دیں جیل میں نہیں رہ سکتا یا معافی دے دیں۔ملزم نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عدالت سے معافی بھی مانگی۔ملزم نے کہا کہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے مرنا نہیں چاہتا،

میری شادی ہونی چاہئیے بچے ہونے چاہئیے۔ وکیل جو کچھ کہہ رہا ہے بے بنیاد ہیں۔ مجھے چھوڑ دیں۔ہم لڑے تھے میری غلطی تھی،وہ بھی غصے میں تھی۔ملزم نے نور مقدم کے والد شوکت مقدم سے کہا کہ میری زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے آپ مجھے بچا سکتے ہیں۔ملزم نے عدالت میں شوکت مقدم سے گفتگو کی اور کہا کہ آپ میری زندگی لینا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔نور مقدم کیس میں مقامی عدالت نے ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی۔مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کی۔مرکزی ملزم ظاہر جعفر،ذاکر جعفر،عصمت آدم،افتخار، جمیل،جان محمد پر فرد جرم عائد کی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں