” کلبھوشن اور ریمنڈ ڈیوس“

تحریر: رانا محمود
کالم سے قبل ایک گزارش ۔
ایک صحافی کا کام حقائق کو پیش کرنا ہوتا ہے ، خواہ اُن حقائق کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو ، لہذا ایک صحافی کو کسی بھی سیاسی جماعت سے جوڑنا درست نہیں ۔

اپریل ۲۰۱۷ میں پاکستان کی ملٹری کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو جاسوسی اور دہشت گرد ی کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنایا ۔

۸ مئی ۲۰۱۷ کو بھارت نے عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کیا اور پاکستان کے خلاف ایک پیٹیشن دائر کی ، جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیاکہ پاکستان نے ویانا کنونشن کے آرٹیکل ۳۶ کی خلاف ورزی کرتے ہوے بھارت کے ایک باشندے کلبھوشن سدھیریادیو کی گرفتاری اور قید کو اخفاء میں رکھا اور بھارت کو فوری مطلع نہ کیا ۔ مزید برآں اسے کونسلر رسائی سے بھی محروم رکھا گیا ۔

اُسی روز بھارت نے عالمی عدالتِ انصاف میں ایک اور درخواست بھی دائر کی جس میں عدالت سے کلبھوشن کی سزائے موت رکوانے اور ہندوستان بجھوانے کی استدعا کی گئی تا وہ اپنے تمام قانونی حقوق بروئے کار لا سکے اور (بھارتی) عدالت کیس کے حقائق کے مطابق فیصلہ کر سکے ۔

اگرچہ ابتداً پاکستان نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ بھارت کی پیٹیشنز قابلِ سماعت نہیں کیونکہ قومی سلامتی سے متعلق امور عدالت عالیہ کے دائرہ اختیار ہی میں نہیں آتے اور دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریانے بھی اپنے بیان میں واضح کیا کہ بھارت کلبھوشن کے کیس کو دہشتگردی سے ہٹا کر ایک عام انسانی معاملہ بنا کر پیش کر رہا ہے تا دنیا کی توجہ بھارتی دہشتگردی سے ہٹائی جا سکے ۔ تاہم عدالت نے متفقہ طور پر بھارتی پیٹیشنز کو قابلِ سماعت قرار دیا ۔

دس روز بعد عالمی عدالتِ انصاف نے اپنے ایک آرڈر مجریہ 18 مئی 2017 کے تحت پاکستان کو پابند کیا کہ وہ عدالت کے حتمی فیصلہ آنے تک کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دے ۔

فروری 2019 میں عدالت عظمی کے 16 رُکنی بینچ نے جسکی صدارت صومالیہ سے تعلق رکھنے والے جج عبدالقوی یوسف کر رہے تھے ، چار روز (18 سے 21 فروری) تک کلبھوشن کیس کی سنوائی کی اور 17 جولائی 2019 کو اس کیس کا حتمی فیصلہ سنایا ۔ یاد رہے عدالت کے پینل میں پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی بھی شامل تھے ۔

راقم الحروف بھی اُس روز اے ون ٹی وی کی نمائندگی کرتے ہوے اپنے دیگر صحافی دوستوں بشمول اے آر وائی کے فرید صاحب ، اب تک نیوز کے تبریز عورہ صاحب ، جیو نیوز کے خالد حمید فاروقی اور اُسوقت بول نیوز سے وابستہ امداد حسین صاحب کے ہمراہ فیصلہ سُننے اور اُسکی کوریج کیلئے عالمی عدالتِ انصاف ، ہیگ میں موجود تھا ۔

عدالت نے اپنے فیصلے مجریہ 17 جولائی 2019 میں قرار دیا کہ پاکستان نے چونکہ بھارت کے اس دعوی (کہ کلبھوشن کی گرفتاری کی فوری اطلاع اُنہیں نہیں دی گئی) کا دفاع نہیں کیا لہذا پاکستان ویانا کنونشن کے آرٹئکل ۳۶ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے ۔

بھارت کا یہ مؤقف کہ پاکستان کو کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدرآمد سے روکا جائے اور یہ کہ اُسے بھارتی باشندہ ہونے کے ناطے بھارت کے حوالے کر دیا جائے ، عالمی عدالتِ انصاف نے اپنے فیصلے مؤرخہ 17 جولائی 2019 کے ذریعے بھارت کی اس درخواست کو مسترد کر دیا ، تاہم ساتھ ہی پاکستان کو پابند کیا کہ وہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کی پاسداری کرتے ہوے کلبھوشن کو ملٹری کورٹ کے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دے ۔

26 جنوری 2011 ، پیپلز پارٹی کا دورِ حکومت ۔ ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی بدمعاش بلکہ مجھے کہنے دیجئے اُجرتی قاتل نے دو پاکستانی باشندوں کو دن دیہاڑے لاہور جیسے مصروف شہر میں قتل کردیا اور مدد کیلئے امریکی سفارت خانے سے بلوائی گئی گاڑی نے ایک راہ چلتے معصوم شہری کو بھی کُچل دیا ۔ لوگوں کے اکٹھا ہونے پر پولیس نے روایتی مستعدی ( جو ایسے با اثر لوگوں کیلئے خصوصاً کی جاتی ہے) دکھاتے ہوے ریمنڈ ڈیوس کو اپنے حصار/ حراست میں لے لیا ۔

پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے ، شور شرابہ ، بڑھکیں ، نہیں چھوڑیں گے ، حساب لیا جائیگا ، خون کا بدلہ خون سے لیا جائیگا ، مگر سب محض آوازیں تھیں ، کھوکھلے نعرے تھے اور کچھ نہیں ۔

اور ہاں ، اسوقت کے وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کا یہ عزم کہ فیصلہ سازی میں کوئی امریکی دباؤ برداشت نہیں کیا جائیگا ، لیکن پھر چشمِ فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو بحفاظت ،عزت اور احترام کے ساتھ “ امریکہ برد” کر دیا گیا ۔ اور کیوں نہ کرتے کہ امریکہ بہادر نے اپنے قاتل پر لگے دو قتلوں کے خون مٹانے کیلئےمقتولین کے ورثاء کو ایک خطیر رقم جو ادا کی تھی ۔

معروف اور مؤقر جریدے “ دی اکانومسٹ” کی 3 مئی 2012 کی اشاعت میں ریمنڈ ڈیوس کو امریکی سی آئی اے کا “ انڈر کور”ایجنٹ بتایا گیا اور یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ کیا خون بہا میں ادا کی گئی رقم انصاف کو خرید سکتی ہے ؟ کیونکہ ریمنڈ کی آزادی کے بدلے مقتولین (حیدر اور فہیم) کے ورثاء کوخون بہا میں 20 کروڑ روپے کی خطیر رقم ادا کی گئی تھی ۔

بر سبیلِ تذکرہ ، مارے گئے حیدر کی بیوہ ، زہرہ اپنے خالہ زاد سے دوسری شادی کرنا چاہتی تھی اور زہرہ کی والدہ کو اس شادی پر کوئی اعتراض بھی نہ تھا لیکن زہرہ کا لالچی والد معترض تھا کیونکہ وہ خون بہا میں آئی رقم میں کوئی حصے دار نہیں چاہتا تھا، لہذا اُس نے اپنی بیوی اور بیٹی دونوں کو قتل کردیا ۔

معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا کہ مقتول فہیم کی بد نصیب بیوہ (شمائلہ) نے زہر کھا اپنی بھی جان دے دی کیونکہ اُسے پیپلز پارٹی کی حکومت سے انصاف کی کوئی توقع نہ تھی ۔

بات کچھ لمبی ہوگئی اور کہیں کی کہیں چلی گئی ۔ مدعا یہ ہے کہ حکومتوں میں رہتے ہوے معاملات کچھ اور ہوتے ہیں جبکہ اپوزیشن میں رہتے ہوے سُہانے خواب دکھائے جاتے ہیں اور حکومتی اقدامات کی اور وہ بھی پاکستان جیسے ممالک میں پزیرائی بالکل نہیں کی جاتی ۔ کلبھوشن کو اپیل دئیے جانے کے معاملے کو ہی دیکھ لیجئے کہ عالمی عدالتِ انصاف کے واضح احکامات کے باوجود حکومت کو ہندوستان سے یاری اور نہ جانے کیا کیا طعنے نہیں دئیے گئے ، یہ بجا کہ اپوزیشن کا کام حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا ہوتا ہے لیکن ملکی اور قومی معاملات میں ہمیں چاہئے کہ ہم قوم کے سامنے سچی اور حقیقی تصویر پیش کریں ۔

یاد رکھئیے قانون کی بالادستی ہی میں قوموں کی زندگی ہے اور کسی بھی معاشرے کے امن کی ضمانت ۔ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ کا فرمان ہے کہ معاشرے کفر سے تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن انصاف کے بغیر نہیں ۔