عوام پر بڑھتا مہنگائی کا بوجھ

تحریر:عریبہ سرفراز

گذشتہ شام اس وقت پاکستان کی عوام کو ایک ہی دن میں دوسرا جھٹکا لگا جب پہلے نیپرا کی جانب سے جولائی کے مہینے سے بجلی کے نرخوں میں 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی گئی اور پھر شام میں وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے پیٹرول اور ڈیزل 30، 30 روپے مہنگے کرنے کا اعلان
پاکستان میں گزشتہ 20 دنوں کے دوران پیٹرول کی قیمت میں 84 روپے فی لیٹر جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 115 روپے فی لیٹر اضافہ ہوا ہے۔
اب قیمت 233/L
ڈیزل اب 264/L۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ آپ کے پاس کار نہیں یا آپ کے پاس کار تو ہے لیکن یہ پیٹرول پر چلتی ہے تاہم اگر آپ نے اپنی زندگی میں کبھی ڈیزل کا استعمال نہیں کیا، تب بھی آپ جہاں کہیں بھی ہوں گے یہ بحران آپ کی جیب کو متاثر کرے گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ڈیزل کا زیادہ استعمال زراعت کے شعبے میں ہوتا ہے اور اسی لیے اس کی قیمت میں اضافے کے بعد قوی امکان ہے کہ خوراک کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ دوسری جانب ڈیزل ٹرانسپورٹ اور جنریٹرز کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے پاکستان حکومت کی جانب سے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافے کے بعد کہا کہ اس کا اثر ٹرانسپورٹ، زراعت اور کاروبار پر ہو گا اور مجموعی طور پر مہنگائی میں 30 فیصد اضافہ ہو گا لیکن یہ تو صرف مقامی اثرات ہیں۔کیونکہ ڈیزل زیادہ تر کارگو گاڑیوں میں استعمال ہونے والا ایندھن ہے اور ہماری خوراک، ادویات یہاں تک کہ وہ پیٹرول جو ہم سروس سٹیشنوں پر اپنی کاروں میں بھرتے ہیں ڈیزل سے چلنے والے ٹرکوں کے ذریعے ہی آتا ہے۔ یہی ڈیزل ٹرک سامان ان بحری جہازوں تک پہنچاتے ہیں جو پوری دنیا میں اس کی ترسیل کرتے ہیں۔
بہت سی بسیں اور ٹرینیں بھی ڈیزل ہی استعمال کرتی ہیں اور یہ وہ ایندھن ہے جس پر صنعتیں انحصار کرتی ہیں چاہے وہ کھیتوں میں چلنے والا ٹریکٹر ہی کیوں نہ ہو۔
اس وجہ سے ڈیزل کی کمی پوری دنیا میں سنگین مسائل پیدا کر رہی ہے۔ اگر طلب رسد سے زیادہ ہوتی رہی تو قیمتیں اور بڑھنے کا خطرہ ہے۔
‏کسان برباد ہو چکا..! بجلی کا ریٹ دگنا کر دیا، ڈیزل 259 روپے لیٹر کر دیا، کھاد پہ ٹیکس 2 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کر دیا.. لوگ ٹھیکے پر لی گئی زمین چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں.سازش تھی یا مداخلت دو چہیتے خاندانوں کی سیاست بچانے کے لیے ہنستا بستا ملک آگ میں جھونک دیا گیا.
‎‏نہ ان سے ڈالر کنٹرول ہو رہا ہے
نہ ان سے سٹاک مارکیٹ سنبھل رہی ہے
نہ ان سے مہنگائی پر قابو پایا جا رہا ہے
نہ انہیں کوئی ملک پیسے دے رہا ہے
نہ ان سے تجارتی خسارہ کم ہو رہا ہے میں

انہیں تجربہ کار کہنے والے بتائیں کہ آخر ان “تجربہ کاروں” کا تجربہ کس چیز میں تھا؟حکومت میں تبدیلی جادوئی طور پر مسائل کو حل نہیں کرسکتی جب تک کہ حکومت میں رہنے والے حل تلاش کرنے کا عزم نہ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں