برطانیہ کی خصوصی فورسزکے جنگی جرائم،لندن میں پریشانی

لندن:افغانستان میں برطانیہ کی خصوصی فورسزکے اسکواڈرن کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں جن میں رات کے وقت چھاپامارکارروائیوں کے دوران میں سویلین شہریوں کی ہلاکتوں سمیت دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کا انکشاف ہوا ہے برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی“ کی جاری کردہ نئی فوجی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ایس اے ایس کے ایک یونٹ نے 2010 اور2011 میں افغانستان میں تعیناتی کے دوران چھے ماہ کے عرصے میں 54 افراد کو ہلاک کیا اور برطانیہ کی خصوصی فورسز کے سابق سربراہ جنرل سر مارک کارلیٹن اسمتھ ان ہلاکتوں کی تحقیقات کے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں.

اسپیشل فورسز کے سربراہ بعد میں برطانیہ کی فوج کے سربراہ بن گئے تھے انہیں غیر قانونی ہلاکتوں کے بارے میں بتایا گیا تھا لیکن وہ اس ثبوت کو رائل ملٹری پولیس تک پہنچانے میں ناکام رہے تھے بی بی سی کے رابطہ کرنے پرانہوں نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکارکردیا جنرل سر مارک کارلیٹن اسمتھ گذشتہ ماہ ہی فوج کی سربراہی سے سبکدوش ہوئے ہیں.

نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ انہیں یہ تحقیقات مکمل کرنے میں چارسال لگے ہیں اس دوران کئی ایک خفیہ دستاویزات کو کھنگالا ہے اوراس میں برطانیہ کی خصوصی فورسز کے ہیڈ کوارٹر یعنی ایس اے ایس کی نگرانی کرنے والے فوجی ڈائریکٹوریٹ کی اندرونی ای میلزکا ذخیرہ بھی شامل تھا. ای میلزسے انکشاف ہوا ہے کہ ایس اے ایس کے کئی اعلیٰ افسروں کومعلوم تھا کہ ممکنہ غیرقانونی قتل کے واقعات پرتشویش پائی جاتی ہے لیکن وہ قانونی ذمہ داری کے باوجود فوجی پولیس کو شکوک وشبہات کی اطلاع دینے میں ناکام رہے تھے‘نئی حاصل کردہ رپورٹ میں ایس اے ایس کی رات کے وقت چھاپا مارکارروائیوں کی تفصیل دی گئی ہے.

بی بی سی کو اس دوران میں ریکارڈ سے حاصل شدہ اسی طرح کی رپورٹوں میں ایک ہی طرح اور ایک ہی انداز کے بیانات ملے ہیں اور زیر بحث اسکواڈرن نے بتایا کہ افغان افراد نے حراست میں لیے جانے کے بعد فرنیچر کے پیچھے سے ہتھیارنکال لیے تھے یہ بہانہ مبیّنہ طور پر ان کے قتل کے جواز کے لیے استعمال کیا گیا تھا. تجزیہ اور جانچ پڑتال کی گئی رپورٹوں میں درج ذیل ایک ہی جیسے واقعات شامل ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ نومبر 2010 میں ایس اے ایس اسکواڈرن نے ایک شخص کو قتل کر دیا اسے حراست میں لے لیا گیا تھا اور اسے ایک عمارت کے اندرواپس لے جایا گیا جہاں اس نے مبیّنہ طور پردستی بم سے فورس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تھی.

جنوری 2011 میں ایک اور افغان شخص کو قتل کردیاوہ بھی زیرحراست تھااور اسے ایک عمارت کے اندر واپس لے جایا گیا تھا جہاں اس نے مفروضہ طور پرایک گدے کے پیچھے پہنچ کر ایک دستی بم نکالا اور اسے پھینکنے کی کوشش کی‘سات فروری 2011 کواسکواڈرن نے ایک قیدی کو قتل کر دیا اس نے رائفل سے گشتی فوجی پارٹی پر فائرنگ کرنے کی کوشش کی تھی یہی جواز اسی ماہ نو اور 13 فروری کو فائرنگ کے دو مزید مہلک واقعات میں بیان کیا گیا تھا.

16فروری کودو قیدیوں کو پردوں کے پیچھے سے دستی بم کھینچنے کے الزام میں ہلاک کر دیا گیا اور دوسرے نے ایک میز کے پیچھے سے اے کے 47 رائفل کو اٹھالیا تھا‘اسی سال اپریل میں برطانوی فوجیوں نے دوزیرحراست افراد کو قتل کر دیا انہیں ایک عمارت کے اندر واپس لے جایا گیا تھا جب ان میں سے ایک نے ”اے کے 47“ کھینچ کر تھام لی تھی اور دوسرے نے ”دستی بم پھینکنے“کی کوشش کی ان تمام چھاپا مار کارروائیوں کے دوران میں ایس اے ایس کے کسی اہلکار کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے.

بی بی سی نے ایس اے ایس کے آپریشنل بیانات کا تجزیہ کیا ہے اس میں 2010 سے 2011 میں افغانستان کے جنوبی صوبہ ہلمند میں ایک ایس اے ایس اسکواڈرن کی جانب سے کیے گئے 12 سے زیادہ قتل یا چھاپامارکارروائیوں پرمشتمل رپورٹیں شامل تھیں مبیّنہ طورپربتایا گیا ہے کہ رات کے چھاپوں کے دوران میں غیرمسلح افراد ہلاک ہوئے اور ایک غیرمسلح شخص کے قتل کا جواز پیش کرنے کے لیے ایک جائے وقوعہ پر اے کے 47 (گیس سے چلنے والی آتشیں رائفلیں) نصب کی گئیں.

انہوں نے کہا کہ ایس اے ایس اسکواڈرنز نے زیادہ سے زیادہ افغان افراد قتل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کیا اور زیربحث اسکواڈرن کو جس اسکواڈرن کی جگہ تعینات کیا گیا تھا،اس نے اس سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی ایس اے ایس ہیڈ کوارٹر میں سنیئرافسرکے طور پرکام کرنے والے ایک ذریعے نے اسکواڈرن کی کی کارروائیوں سے متعلق ان رپورٹوں پر حقیقی تشویش کا اظہارکیا ہے انہوں نے کہا کہ رات کو چھاپامارکارروائیوں میں بہت سے لوگ مارے جا رہے تھے اوران کی توجیہات کا کوئی مطلب نہیں تھا اور وہ بالکل فضول تھیں.

ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ جب کسی کو حراست میں لے لیا جاتا ہے تو پھر اسے مرنا نہیں چاہیے باربار جب ایسا ہورہا تھا توہیڈکوارٹر میں خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی اس وقت یہ واضح تھا کہ کچھ غلط ہورہا ہے اس وقت سے بی بی سی کی طرف سے دیکھی گئی اندرونی ای میلز سے پتاچلتا ہے کہ افسروں نے ان اطلاعات پرعدم اعتماد کااظہار کیا انہیں کافی ناقابل یقین قراردیتے ہوئے انہیں ایس اے ایس اسکواڈرن کا”تازہ ترین قتل عام“ کہا تھا.

بی بی سی کے مطابق ایک آپریشن افسر نے اپنے ایک ساتھی کو بھیجی گئی ای میل میں کہا کہ گذشتہ دو ہفتوں میں دسویں بار ایسا ہوا ہے کہ اسکواڈرن نے ایک قیدی کو ایک عمارت میں واپس بھیج دیا اور وہ دوبارہ نمودار ہواہو پھر جب وہ ایک اورلڑنے کی عمر کے مردکے ساتھ ایک مختلف عمارت میں واپس چلے گئے تو اس نے پردے کے پیچھے سے ایک دستی بم اٹھا لیا اور اس کو ایس اے ایس کی ٹیم پرپھینک دیا خوش قسمتی سے یہ پھٹا نہیں یہ آٹھویں بارایسا ہوا ہے اور ہرمرتبہ تم ایسی رپورٹس نہیں بنا سکتے.

اپنا تبصرہ بھیجیں