محرم الحرام… امن عامہ اور مذہبی رواداری

تحریر:حامد جاوید اعوان

نئے اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم الحرام کے سے ہی وطن عزیز کے دیگر حصوں کی طرح پنجاب میں خصوصی مجالس اور مذہبی تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے اس موقع پر وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے اپنے پیغام میں کہا ہے محرم الحرام ہمیں قربانی اور حق سچ پر کھڑے رہنے کا درس دیتا ہے-محرم ا لحرام کے دوران تمام مکاتب فکر کے علماء کرام ومشائخ عظام کو بھائی چارے، مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینا چاہیے-انہوں نے کہا کہ علماء کرام و مشائخ عظام نے ہمیشہ ملک وقوم کی رہنمائی کی ہےاور محرم الحرام کے دوران امن او ریگانگت کی فضا برقرار رکھنے کیلئے علماء کرام و مشائخ عظام کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا انہوں نے امید ظاہر کی کہ موجودہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر علماء کرام و مشائخ عظام ہمیشہ کی طرح یگانگت، یکجہتی او ربھائی چارے کو فروغ دیں گے کیونکہ آج وطن عزیز کو ہر محاذ پر جن چیلنجز کا سامناہے

ہم بحیثیت قوم اتحاد او راتفاق کی رسی کو پکڑ کر ان چیلنجزسے نمٹ سکتے ہیں چودھری پرویز الہٰی نے اس موقع پر کہا کہ وطن عزیز کی مٹی ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ذاتی مفادات اور گروہی اختلافات بھلا کر ایک ہوجائیں کیونکہ ہماری نجات اسوہ حسنہ ؐ اور فلسفہ حسینؓ پر عمل پیرا ہونے میں ہی ہے-ہمیں باہمی اتحاد اور ہم آہنگی کے ذریعے دشمن کے ناپاک عزائم کوخاک میں ملانا ہے۔نواسہ رسولؐ نے اپنے کردار اورعمل سے حق کی آواز کو بلند کرنا اورانسانی اقدار کاتحفظ سکھایا۔ حضرت امام حسین ؓکی جدوجہد ظلم کیخلاف سینہ سپر ہونے کاابدی پیغام ہے۔حکومت پنجاب کی طرف سے محرم الحرام کے دوران صوبے میں امن قائم اتحاد اور یکجہتی کی فضا قائم رکھنے کے فول پروف انتظامات کیے ہیں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے چوکس کیا گیا ہے امام بارگاہوں کے تحفظ علم تعزیہ اور ذوالجناح کے جلوس کے روٹس پر عزاداروں کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کے لیے مختلف اداروں کی طرف سے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں متحدہ علماء بورڈ کی طرف سے فل بورڈ اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کی طرف سے بھی محرم الحرام کے دوران باہمی بیگانگیت بھائی چارہے اور افهام و تفہیم کی فضا قائم کرنے کے لئے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے بورڈ کے چیئرمین محمد طاہر اشرفی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ضابطہ اخلاق کی پابندی ہر صورت ممکن بنائی جائے گی اس حوالے سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق میں باہمی اتفاق رائے سے تمام تر ضرور ی نکات شامل کیے گئے ہیں
متحدہ علماء بورڈ اور ملک کے مختلف مکاتب فکر کے علماء و مشائخ و قائدین نے محرم الحرام کیلئے ضابطہ اخلاق جاری کرتے ہوئے ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت سے مذاکراتی عمل کے ذریعے ملک میں افہام و تفہیم کی فضاء پیدا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے قائدین نے مذہبی انتہا پسندی و شدت پسندی کے خاتمے کیلئے قوم کو پیغام پاکستان کا تحفہ دیا ۔ سیاسی قیادت میثاق پاکستان کر کے قوم کو متفقہ طور پر استحکام پاکستان کا تحفہ دیں ۔ 25 سال کیلئے ملک کی داخلہ و خارجہ، معاشی و معاشرتی پالیسی کو طے کر لیا جائے ۔ افواج پاکستان ، سلامتی کے اداروں اور سپہ سالار قوم جنرل قمر جاوید باجوہ نے وطن عزیز پاکستان کیلئے جو خدمات اور قربانیاں دی ہیں وہ قابل تحسین اور قابل فخر ہیں ، افواج پاکستان اور ملک کے حساس اداروں کے خلاف مہم بند کی جائے ۔ جہاد اور دیگر اسلامی اصلاحات کا ذاتی اور سیاسی مقاصد کیلئے نام لینا بند کیا جائے ۔ متحدہ علماء بورڈ کے اجلاس کے بعد لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین متحدہ علماء بورڈ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی ، مولانا حسان حسیب الرحمن ، علامہ عبد الحق مجاہد ،علامہ حسین اکبر، مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، مولانا راغب حسین نعیمی، مولانا ظفر اللہ شفیق ، حافظ زبیر حسن ،مولانا محمد علی نقشبندی، مولانا محمد رمضان سیالوی ، محترمہ ڈاکٹر شاہدہ پروین، مولانا محمد خان لغاری، محترمہ نبیرہ عندلیب،مولانا محمد یٰسین ظفر، مولانا عبد الوہاب روپڑی، پروفیسر ابو بکر صدیق، محترمہ ڈاکٹر صائمہ فاروق، علامہ قاضی نادر علوی ، سید حسن رضا ہمدانی ، محترمہ سیدہ سائرہ جعفری اور دیگر نے کہا کہ ہم ملک کی تمام سیاسی و مذہبی قیادت سے افہام و تفہیم اور باہمی مذاکرات کی اپیل کرتے ہیں۔ ملک کی معاشی و اقتصادی و معاشرتی صورتحال تقاضہ کرتی ہے کہ اپنی انائوں ، تعصبات سے بالا تر ہو کر ملک و قوم کی فکر کی جائے ، تلخیاں کم کی جائیں ، انتہا پسندانہ اور متشددانہ رویے ختم کیے جائیں۔۔ متحدہ علماء بورڈ کے فل بورڈ اجلاس نے 19 نقاطی پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق جاری کیا۔
پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق
1) فرقہ ورانہ منافرت، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے زور پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت اسلامیہ کے احکام کے منافی اور فسادفی الارض اور ایک قومی و ملی جرم ہے۔
2) تمام مسالک کے علماء و مشائخ اور مفتیان پاکستان انتہا پسند انہ سوچ اور شدت پسندی کو مکمل مسترد کرتے ہیں۔
3) انبیاء کرامؑ، اصحاب ؓرسولﷺ ، ازواج مطہراتؓ اور اہل ِبیت اطہارؓکےتقدس کو ملحوظ رکھنا ایک فریضہ ہےاور جو شخص ان مقدسات کی توہین و تکفیر کرے گا تمام مکاتب فکر اس سے برات کرتے ہیں اور ایسے شخص کے خلاف قانون کو فوری حرکت میں آنا چاہیے ۔
4) مختلف مکاتب فکر، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ماننے والے ، مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین کا ایک دوسرے کے خلاف سب وشتم (گالم گلوچ)، بد زبانی، اشتعال انگیزی، نفرت اور اختلاف کی بنا پر قتل وغارت گری یا اپنے نظریات کو دوسروں پر جبر کے ذریعے مسلط کرنا یا ایک دوسرے کی جان کے درپئے ہونا شریعت اسلامیہ کے مطابق حرام ہے اور ملک بھر کے علماء و مشائخ ایسے عناصر سے برات کا اعلان کرتے ہیں۔
5) دینی شعائر اور نعروں کی نجی عسکری مقاصد اور مسلح طاقت کے حصول کے لیے استعمال کرنا قرآن وسنت کی رو سےقطعی طور پر درست نہیں ۔
6) علماء و مشائخ اور مفتیان عظام کا فریضہ ہے کہ درست اور غلط نظریات میں امتیاز کرنے کے بار ےمیں لوگوں کو آگاہی دیں جبکہ کسی کو کافر قرار دینا (تکفیر) ریاست کا دائرہ اختیار ہےجو ریاست شریعت اسلامیہ کی رو سے طے کرے گی۔
7) پاکستان کے تمام غیر مسلم شہر یوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اور اپنے تہواروں کے موقع پر اپنے اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور جو حق غیر مسلم شہریوں کو آئین پاکستان نے دئیے ہیں ان کو کوئی فرد ، گروہ یا جماعت سلب نہیں کر سکتی۔
8) جو غیر مسلم اسلامی ریاست میں امن کے ساتھ رہتے ہیں انہیں قتل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ گناہ ہے اور جو آئین پاکستان اور قوانین پاکستان کی خلاف ورزی کریں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کو قانون کے دائرے میں سزا دے۔
9) اسلام کی رو سے خواتین کا احترام اور ان کے حقوق کی پاس داری کرنا سب کے لئے ضروری ہے ۔خواتین کو وراثت میں حق دینا اور خواتین کی تعلیم کا حکم شریعت اسلامیہ نے دیا ہے ۔
10) سر زمین اسلامی جمہوریہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی مقدس امانت ہے لہٰذا کسی بھی قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے لئے اسکا استعمال جائز نہیں اور ایسے عناصر سے ہم سب اعلان برات کرتے ہیں۔
11) ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت میں شرکت یا اس کی کسی بھی طرح مددیا حمایت کرنا کسی بھی صورت شرعی اور قانونی طور پر درست نہ ہے ۔
12) حکومت یا مسلح افواج و دیگر سیکیورٹی اداروں کے خلاف مسلح کارروائیاں بغاوت کے زمر ے میں آتی ہیں جو شرعا حرام ہیں۔ہم پاکستان کی مسلح افواج اور سلامتی کے اداروں کی ملک و قوم کیلئے قربانیوں اور جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں۔
13) جہاد کا وہ پہلو جس میں جنگ اور قتال شامل ہیں کو شروع کرنے کا اختیار صرف اسلامی ریاست کا ہے۔جہاد ایک اسلامی اصطلاح ہے ،اس کا اور دیگر اسلامی اصطلاحات کا استعمال شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیے ، ذاتی و سیاسی مفادات و مصلحتوں کیلئے اس کا استعمال درست نہیں ہے۔
14) نفاذِشریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب کاری وفساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں اسلامی شریعت کی رو سے حرام ہیں ۔
15) محرم الحرام ، صفر المظفر کے ایام عزا میں پاکستان کے تمام شہریوں اور مسلمانوں کو بالعموم شیعان حیدر کرار کو مقررہ مجالس منعقد کرنے اور جلوسھای عزا کو برآمد کرنے کی آئین اور قانون کے مطابق آزادی ہونی چاہیے ،نیز قانون کے مطابق چادر و چار دیواری کے تقدس کا مکمل خیال رکھا جائے ۔
16) تمام اہل محلہ اور محبان اہل بیت علیہم السلام اور عاشقان صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ باہمی برداشت کے ساتھ وطن اور اسلام دشمنوں کی سازشوں پر پوری نظر رکھیں ۔ شیعہ مکتب فکر کے مسلمانوں کے ساتھ ان کے نظریہ اور عقیدہ کے مطابق قانونی اور آئینی طور پر ایام عزا ، زکر شہداء کربلا منانے کیلئے بھرپور مدد کریں گے ۔
17) تمام مکاتب فکر کے علماء کرام ، ذاکرین عظام ، خطباء امت کو جوڑنے کا فریضہ ادا کریں گے ۔ مفسدین اور تخریب کاروں پر نظر رکھ کر موقعہ پر انتظامیہ کے حوالے کریں گے۔
18) یہ امر پہلے سے طے شدہ ہے کہ ہر مسلک کے عالم ، واعظ ، خطیب ، ذاکر کو اپنے مسلک کے پیروکاروں کو اپنے مذہب کے عقائد ، اصول و فروع کو بیان کرے ۔ انداز باین میں اس بات کا خیال رکھے کہ تمام عالم اسلام کی مذہبی و دینی شخصیات کی توہین نہ ہو اور دوسروں کے عقائد و نظریات کو طعن تشنیع کا نشانہ نہ بنائیں۔
19) ملک کے تمام سرکاری و غیر سرکاری ذرائع ابلاغ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ محرم الحرام سے قبل ، بعد اور دوران پیغام پاکستان کی روشنی میں مرتب کردہ ضابطہ اخلاق کی مکمل تشہیر کریں اور وحدت اور اتحاد کے پیغام کو عام کرنے میں معاون بنیں۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا و پرنٹ میڈیا پر کسی بھی ایسی تحریر و تقریر جس سے اشتعال پیدا ہو ، اس کے خلاف متعلقہ حکومتی ادارے فوری طور پر کاروائی کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں