اسلام آبادکے بزدار

تحریر: نسیم صدیقی
mnsid44@gmail.com

شہباز شریف کی جو پرفارمنس پنجاب میں تھی ، وہ وفاق میں نہیں جیسا کہ کالم کے عنوان میں ہی کچھ کچھ سمجھ آرہا ہوگا کہ اسلام آباد کے بزدار کس کی طرف اشارہ ہے ۔ جی جناب موجودہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف ن لیگ کے لیے اسلام آباد کے بزدار نکلے ۔ پانچ مہینے ہوچکے ہیں مگر کارکردگی صفر۔ اب تک کے معاملات سے تو صرف یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ صرف باتیں ہی باتیں ہیں کام کاج کچھ نہیں کارنامے پرفارمنس کچھ نہیں ۔ خادم اعلیٰ سے خادم پاکستان تک کے سفر میں یوں بتلایا اور جتلایا جاتا تھا کہ شہباز شریف وزیر اعظم بن کر سب کچھ بنا دیں گے مگر 10 اپریل سے اب تک ہوا تو کچھ بھی نہیں بلکہ جو کچھ تھوڑا بہت بنا بنا یا تھا وہ بھی بگڑ چکا ہے ۔ شہباز شریف اور ن لیگ کو ایک بات خاص ذہن میں رکھنی ہوگی کہ سابقہ حکومت کی لاکھ لاکھ کمزوریوں کے باوجود دراصل پنجاب میں بزدار پرفارمنس ، عمران خان اور فوج کے درمیان وجہ تنازعات بنی ، اقتدار کی لغزش بنی ،علیم خان اور ترین گروپ سے اختلافات بھی بزدار پرفارمنس ہی ثابت ہوئے اور یہ بات میں یہاں اس لیے بھی باور کرانا چاہ رہا ہوں کہ آپ کی نا ہوتی پرفارمنس ، کمزور اتحاد اور پارٹی کے اندر سے آوازیں حکومت کے لیے خاص خطرہ ہیں ۔ فقط دو سیٹوں پر قائم حکومت کتنی کوئی پائیدار ہوسکتی ہے اس کا انحصار صرف کارکردگی پر ہوسکتا ہے یہ تو وہ بات ہوجانی ہے کہ بزدار بزدار کیندے نے ، آپ ہی بزدار ہوگیا۔ سردار عثمان بزدار کو یہ ہی طعنہ دیا جاتا تھا نا کہ شہباز حکومت بڑی vibrant اور energetic تھی حالانکہ پنجاب میں وہ بھی صرف چند ایک بڑے شہروں میں سڑکیں ، بریجز اور انڈر پاسز کے علاوہ اور کوئی کام دکھائی نہیں دیتا تھا ۔ نہ صحت کے شعبے میں کوئی دلچسپی نہ تعلیم پر کوئی اہمیت بس خود نمائی کی وجہ سے تھوڑے سے کام کو زیادہ دکھایا جاتا تھا اور اصل مسائل پر ایک اینٹ تک نہیں رکھی گئی تھی ۔
دوسری طرف بزدار حکومت پر بھی حقیقی نظر ڈالی جائے تو ان کے بھی کچھ ”کام“ تھے مثلاً صحت کے شعبے میں کافی کام کیاگیا ، تعلیم کے سلسلے میں گھوسٹ اسکولز کو ختم کیاگیا جہاں کبھی بھینسیں بندھا کرتیں تھیں، مگر بزدار صاحب کی بد قسمتی ان کی اپنی سادگی تھی اور یہ بد قسمتی کا لفظ اس بابت استعمال کیا ہے کہ بزدار صاحب کو آنے کے چند مہینوں کے اندر ہی سیکھ جانا چاہیے تھا کہ پیچھے شہباز شریف کی ” چمکدار“ پرفارمنس ہے اور آگے کا دور خود نمائی کا ہے جس کا تسلسل شہباز شریف خادم اعلیٰ کی صورت میں دے گئے تھے مگر عثمان بزدار خاموش طبع اور چھپے چھپے سے رہنے والے تھے ویسے آجکل بھی اتنا خاموش اور چھپے ہوئے ہیں کہ جب سے وزارت اعلیٰ گئی ہے بچی کچی آواز اور تصویر بھی غائب ہوچکی ہے پنجاب کے 20 حلقوں کے ضمنی انتخابات میں ان کو خاص آگے آگے نظر آنا چاہیے تھا مگر شاید تحریک انصاف نے اپنے طور پر جان لیا ہوگا کہ ان کو آگے رکھ کر ووٹ نہیں لیا جاسکتا جب ہی وہ پیچھے ہی رہے ۔ البتہ آج کے پرویز الٰہی کا اسٹارٹ کافی بہتر ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ ان کے پاس تجربہ بھی ہے اور ویژن بھی ہے ان کے سابقہ دور میں کئی کافی اچھے کام ہوچکے تھے پنجاب میں پٹواری سسٹم کی بہتری ، 1122 ، نہری نظام کی درستگی و صفائی ، صنعت و زراعت کے شعبے میں معقول انتظام وغیرہ وغیرہ۔ جس کا موازنہ شہباز شریف کے بلا شراکت غیر ے 10 سال کے مقابلے میں کافی بہتر تھا۔
اسلام آباد کے بزدار نامی کالم میں شہباز شریف حکومت کو یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ 10 اپریل سے اب تک کچھ نہیں کر پائے ہیں ۔ آپ کا اصل کام معیشت کو سنبھالنا تھا سنبھالنا ہے ۔ آپ لندن کا دورہ کررہے ہیں کبھی سعودیہ جارہے ہیں ،UAE جارہے ہیں مگر حاصل وصول کچھ بھی نہیں ۔ کبھی فلاں چیز کررہے ہیں کبھی سیمینارز ہورہے ہیں مگر معیشت روز بروز زوال پذیر ہے ۔ مفتاح اسماعیل کبھی قیمتیں کم کردیتے ہیں کبھی بڑھا دیتے ہیں بغیر ویژن بغیر پلاننگ کے کچھ نہیں ہونا آپ کے وزیر خزانہ کو تو خود کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کرنا کیا ہے چھوٹے چھوٹے دکانداروں پر بھاری بھاری سیلز ٹیکسز لگا کر ان کو خوفزدہ کردیا ڈپریشن میں مبتلا کردیا تاجر برادری کو سراپا احتجاج کردیا اب کہہ رہے ہیں مجھ سے غلطی ہوگئی ۔ بھئی آپ کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں آپ تو عمران خان کی ” غلطیوں “ کو سدھارنے آئے تھے ۔ عمران خان دیوالیہ کے قریب لے جارہا تھا مگر ڈالر اور پیٹرول قابو میں تھا مگر اسلام آباد کے بزدار صاحب اور ان کے مفتاح صاحب نہ جانے کیا کررہے ہیں ڈالر اور پیٹرول بے قابو ہوچکا ہے آپے ہی مرضی سے اوپر نیچے جارہا ہے یعنی کہ حکومت کی اپنی کوئی گرفت نہیں کوئی کارکردگی نہیں ۔ شہباز شریف صاحب مفتاح صاحب کے اقدامات سے تو پارٹی رہنما مریم نواز صاحبہ بھی بیزار ہےں میاں جاوید لطیف نے تو ان کو اپنا وزیر اپنا آدمی تک ماننے سے انکار کردیا ہے ۔ دوسری طرف اتحادی خاص کر سب سے بڑے اتحادی زرداری صاحب بھی ناراض بیٹھے ہیں ۔ آرمی چیف کو کوششیں اور کاوشیں کرنا پڑرہی ہیں کہ کسی طرح ملک سیدھا ہوجائے مگر آپ لوگ کسی اور خواب میں ہےں ۔میں نے اس لیے کہا کہ خراب پرفارمنس ڈولتی معیشت سے بڑے بڑے اتحادی اور ملک کے امین دور ہوجاتے ہیں مثال سردار عثمان بزدار کی دے چکا ہوں ۔ شہباز شریف صاحب آپ کے لیے لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے ، حکومت نے تو شہ خانہ ، فارن فنڈنگ اور شہباز گل کیس بنا کر دیکھ لیا مگر خان کی مقبولیت کم نہیں ہورہی اس کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کی پرفارمنس کچھ بھی نہیں ، اگرچہ پرفارمنس ہو تو قوم پیچھے والوں کو پیچھے ہی چھوڑ آتی ہے مگر یہاں تو کام ہی الٹا ہوتا نظر آرہا ہے ”ذرا سوچیے“ بقول آپ کے آپ لوگ اگست
2023 تک حکومت کریں گے تو کیا ایسے کریں گے ؟ اور اگر ایسے ہی کریں گے تو پھر فیصلہ آپ کے خلاف اور کسی ”اور“ کے حق میں چلا جائے گا جلد از جلد اپنے آپ کو اسلام آباد کے بزدار بننے سے بچائیے ورنہ بچانے کو کوئی نہیں بچے گا پھر بھگتیئے گا آپ خود ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں