ارشد شریف کو قتل کرنے سے قبل گھنٹوں تشدد کا نشانہ بنایا گیا

لاہور : سینئر کامران شاہد کے مطابق ارشد شریف کو قتل کرنے سے قبل گھنٹوں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی اور اینکر کامران شاہد نے دنیا نیوز کے پروگرام میں شہید صحافی ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں۔ کامران شاہد کے مطابق ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے کینیا کی پولیس جھوٹ بول رہی ہے، ارشد شریف کو مبینہ طور پر بدترین تشدد کے بعد قتل کیا گیا۔

انہیں روک کر گاڑی سے اتار کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، شہید صحافی کو 10 یا 15 منٹ نہیں بلکہ کم و بیش 3 گھنٹے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انتہائی قریب سے کمر پر گولی ماری گئی، تشدد کر کے انگلیاں اور جسم کی ہڈیاں توڑی گئیں، ان کی انگلیوں کے ناخن نکالے گئے۔
اینکر کامران شاہد کا کہنا ہے کہ انہوں نے جب سے ارشد شریف پر تشدد کے حوالے سے تصاویر اور شواہد دیکھے ہیں، ان کی طبیعت بہت بوجھل ہے۔

ارشد شریف پر تشدد کا سوچ کر لرز جاتا ہوں، یہ کوئی سیدھی فائرنگ کا کیس نہیں تھا، انہیں انتہائی قریب سے قتل کیا گیا، عقل حیران ہوں کہ انہیں ایسے کیوں قتل کیا گیا؟ ان کی کینیا میں آخر کیا دشمنی تھی؟ دوسری جانب کینیا میں سینئر صحافی ارشد شریف کو جس گاڑی میں قتل کیا گیا تھا اس کی ویڈیو نجی ٹی وی چینل جیو نیوز نے حاصل کرلی۔کینیا پولیس سروس کی جانب سے تحویل میں لی گئی گاڑی کے مالکان کینیا میں موجود وقار احمد اور خرم احمد ہے۔

گولیوں سے چھلنی گاڑی کی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ ارشد شریف کی گاڑی پر 9 گولیاں برسائی گئیں۔ گاڑی ارشد شریف والی سائیڈ سے خون میں لت پت ہے تاہم ڈرائیور والی سائیڈ کو کچھ بھی نہیں ہوا۔جبکہ ارشد شریف قتل کیس سے متعلق چوری شدہ گاڑی کے مالک کے اہم انکشافات سامنے آئے ہیں،مالک کے مطابق جس گاڑی کو چوری شدہ قرار دے کر ارشد شریف پر گولی چلائی گئی وہ حملے سے پہلے مل چکی تھی۔

ارشد شریف کی گاڑی پر گولی نیروبی سے 100 کلومیٹر سے بھی زیادہ دور مقام پر چلائی گئی۔ ارشد شریف قتل سے کیس سے متعلق تحقیقاتی صحافت کے ادارے فیکٹ فوکس اور وائس آف امریکا نے مشترکہ رپورٹ جاری کر دی۔ ڈگلس کماؤ نے فیکٹ فوکس کو مزید بتایا کہ ان کی گاڑی میں ٹریکنگ کے جدید ترین آلات نصب تھے جو گاڑی کی لمحہ بہ لمحہ لوکیشن سے پولیس کو آگاہ کر رہے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ فیکٹ فوکس نے مبینہ طور پر چوری ہونے والی گاڑی اور جس گاڑی میں پاکستانی صحافی ارشد شریف سوار تھے دونوں کا رجسٹریشن ریکارڈ باضابطہ طور پر درخواست دے کرحاصل کیا۔ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے اسکی تصاویر میڈیا میں شائع ہوئیں۔ فیکٹ فوکس نے ڈگلس کی گاڑی کی تصویر انٹرنیٹ سے حاصل کر کے ڈگلس کے دفتر سے اس کی تصدیق بھی کرائی۔دونوں گاڑیوں کی ظاہری شکل میں بہت فرق ہے۔ رپورٹ کے مطابق کینیا کی پولیس کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کے سوالات کے جواب میں کہا کہ چونکہ پولیس پر تحقیقات ہو رہی ہیں،لہذا وہ اس موضوع پر کوئی بیان نہیں دے سکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں