نوازشریف کی نظریاتی دشمنیاں اور نقصانات

میاں نوازشریف کی گزشتہ حکومت کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا تھا۔ معاشی چیلنجز تو حل ہوتے جارہے تھے لیکن اصل چیلنج کی شدت کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی تھی اور وہ نوازشریف کے لئے ایک روایتی چیلنج ہی تھا۔ جس کا انہیں ہر مرتبہ حکومت کے دوران سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ وہ چیلنج تھا اسٹبلشنٹ سے تعلقات میں گرمی، سر د مہری ۔ جنرل باجوہ کے دور کا جب آغاز ہوا تو میاں نوازشریف کو ایسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جن کے سامنے وہ کچھ نہ کر پائے ۔ اس وقت پا ناما، ڈان لیکس اور بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی نے میاں نوازشریف کو اپنے آئند ہ کے سیاسی مستقبل کی راہ کافی حد تک واضح کردی تھی ۔ڈان لیکس کے ذریعے نوازشریف کی حب الوطنی کو مشکوک کیا گیا ، بلوچستان میں حکومت ختم کرکے وفاق میں ن لیگ کی حکومت کو جھٹکا دیا گیاجبکہ پانامہ کے ذریعے نوازشریف کو کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔
اور پھر پانامہ کے ذریعے ہی نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کی مدت پوری نہ ہونے دی گئی ۔ ایک ہائبرڈ رجیم کی بنیاد رکھی گئی جو عمران خان کی 2018کے انتخابات میں جیت کی شکل میں سامنے آئی ۔
یہاں سے میاں نوازشریف کی وہ نظریاتی جدو جہد شروع ہوئی جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی داستانیں رقم کیں ہیں ۔جی ٹی روڈ سے ریلی کی صورت میں ووٹ کو عزت دو کا جو بیانیہ چلایا گیا اس کی اتنی جلدی کامیابی کبھی تصور ہی نہیں کی جاسکتی تھی۔ بلکہ بعض دانشور تو یہ سمجھتے تھے کہ یہ ناممکن ہے میاں نوازشریف اپنی سیاست کا خاتمہ اپنے ہاتھوں سے کررہے ہیں ۔ کہاجاتا تھا نوازشریف کو اس قدر نظریاتی بننے کے لئے اپنی سیاست کی قربانی دینی پڑی۔ یہ بھی کہاجاتا رہا کہ نوازشریف پاکستان کی سیاست کا غیر اہم باب بن چکے ہیں ۔ لیکن جی ٹی روڈ سے شروع ہونے والی جدوجہد جیل کی سلاخوں تک جاری رہی ۔ اس جدوجہد میں صرف نوازشریف کا کیس نہیں تھا بلکہ پاکستان کی تمام جمہوری پارٹیوں کا کیس تھا۔ نوازشریف نے ان تمام سیاستدانوں کا کیس لڑا جنہوں نے جب بھی اسٹبلشمنٹ کے غیر آئینی کردار پر سوال اٹھایا انہیں غدار کہا گیا ۔ بلکہ ان صحافیوں کی بھی جنگ لڑی جنہیں غداری کے لیبل عطا کیے جاتے رہے ۔
شاید یہ پختہ ارادے کی بدولت ہی ہوا تھا کہ جیل سے نوازشریف کے حوالے سے سلو پوائزننگ کی خبریں آئیں ۔ ان کی صحت کے خراب ہونے کی تصدیق عمران خان نے خود کی ۔ شوکت خانم کے روح رواں ڈاکٹر فیصل کو بھیج کر عمران خان نے تصدیق کرکے ٹی وی پر بتایا کہ نوازشریف کتنے بیمار ہیں اور انہیں علاج کے لئے باہر بھیج دینا چاہیے ۔ وہ الگ بات ہے کہ عمران خان نے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے بعد میں اسی بیماری پر یوٹرن لیا ۔ حامد میر صاحب نے اپنے کالم میں عرض کیا کہ ہمیں میڈیکل رپورٹس دکھائی گئیں اور ہم نے بھی سپورٹ کیا کہ نوازشریف کو باہر بھیجنا چاہیے ، لیکن اس کے بعد میاں نوازشریف واپس نہیں آئے اور نہ ہی ہمیں میسج یا کال کرکے کہا کہ فلاں وجہ سے واپس نہیں آسکا ۔کوئی وضاحت نہیں د، حامد میر صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جس دور حکومت میں پاکستان میں مخالف آوازیں گولیوں کے ذریعے بند کرائی جارہیں تھیں۔ ابصار عالم صاحب جیسے صحافی قاتلانہ حملے کا شکار ہورہے تھے ۔ اسد طور، مطیع اللہ جان سمیت کئی آوازیں بند کرانے کی کوششیں کی جارہی تھیں ۔ سیاستدانوں کو موت کی چکیوں میں رکھا جارہا تھا۔ رانا ثناء اللہ جیسے سینئر سیاستدان پر ایسا مقدمہ بنایا گیا جس کی سزا پھانسی تھی ۔عمران خان سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالنے کا کتنا شوق رکھتے تھے یہ راز تو اب ویسے بھی کھل چکا ہے کہ عمران خان ڈی جی آئی ایس آئی سے انٹرویو میں صرف یہی ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالنا ہے ۔ جب احتساب کے اداروں سے لیکر انصاف کے اداروں تک سارا سسٹم کمپرومائزڈ ہو تو کیا ایسے گھٹن زدہ دور میں نوازشریف واپس آتے ۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ وہ صحت مند ہوچکے تھے تو کیا شریعت بھی اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ اپنی جان کی حفاظت کرنا مسلمان کا فرض ہے ۔ اگر نوازشریف اپنے نظریے سے پیچھے ہٹ گیا ہوتا تو مریم نواز کی بھی اپنے ساتھ ڈیل کی جاتی ۔ انہیں جیل میں چھوڑ کر نہ جایا جاتا ،میر صاحب آپ نے جو پوزیشن لی تھی وہ ایک نظریاتی پوزیشن تھی ۔ پاکستان میں جمہوریت کی سا لمیت کی خاطر پوزیشن لی تھی اس میں آپ نے نوازشریف یا کسی فرد واحد پر تو کوئی احسان نہیں کیا ۔ میں آپ کو یاد کراتا چلوں ،نوازشریف اگر نظریاتی نہ ہوتا تو ابھی تک بلا شرکت غیرے حکومت کررہا ہوتا۔ آپ کو یاد ہوگا جب آپ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تو وہ نوازشریف ہی تھا جو بطور وزیر اعظم آپ کی عیادت کو پہنچا ۔ اس وقت آپ نے اس حملے کا الزام جن اداروں پر لگایا تھا ان سے کھلی دشمنی مول لیکر نوازشریف پہنچا تھا اور اس وقت نوازشریف کے اسٹبلشمنٹ سے تعلقات خراب ہونے کا آغاز ہوا تھا ۔ یعنی نوازشریف نے آپ کو نہیں آپ کے نظریے کو سپورٹ کرنے کی خاطر اپنی حکومت تک کو خطرے میں ڈال دیا تھا ۔ نوازشریف اگر نظریے پر ڈٹے نہ رہتے تو نہ انہیں جیل جانا پڑتا، نہ جلاوطنی کاٹنی پڑتی ، بلکہ وہ ہائبرڈ رجیم چلارہے ہوتے۔ یہ نوازشریف کا نظریہ ہی تھا کہ جس کی خاطر وہ ہربار اپنی حکومت کی قربانی دیتے آرہے ہیں ۔ اگر نوازشریف نے وہ نظریہ اپنایا ہوتا جس کے تحت دن میں اسٹبلشمنٹ کو گالیاں دی جائیں اور رات کو ان کے پائوں پکڑے جائیں تو آج عمران خان کا ٹرائیکا نہ ٹوٹ پاتا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عمران خان کے ہائبرڈ رجیم کو توڑنے میں نوازشریف کا نظریہ سیسہ پلائی دیوار بنا رہا ۔ نوازشریف کا ہی بیانیہ تھا جس نے جنرل باجوہ کو نیوٹرل ہونے پر مجبور کیا اور جنرل باجوہ نے عمران خان کی دشمنی مول لی ۔ اس امر کا اقرار جنرل باجوہ خود کرچکے ہیں کہ کورکمانڈرز کانفرنس میں26میں سے 20کی یہ رائے تھی کہ ہمیں نیوٹرل ہوجانا چاہیے ۔ رواں سال جنوری میں یہ فیصلہ نوازشریف کے عوامی مطالبے کے تحت ہی کیا گیا تھا ۔ایک بار پھر کہوں گا اگر نوازشریف کا نظریہ نہ ہوتا تو آج ادارے کی جانب سے نیوٹرل ہونے کا تاریخی فیصلہ نہ سننے کو ملتا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں