چیل نما سیاستدانوں سے کب نجات ملے گی ؟

ایک چیل کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلا رہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔ چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہوسکیں۔ چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی: ”بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔ تم بھی آسمان پر اڑسکتے ہو۔ میں بھی آسمان پر اڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کرسکتے۔میں بلی کو حملہ کر کے زخمی کرسکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کرسکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آازدی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔ میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔ بھائیو! اور بہنو! میں ظلم کے خلاف ہوں۔ انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔ دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کرسکو۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔ جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو گے اور مجھے ہی حقوق اور پور ااختیار دے دو گے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذے داری ہوگی۔ تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرم رہو گے۔ اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہوگی۔ چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیار محبت سے ان باتوں کوطرح طرح سے دہرانی۔ رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔ ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔ اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔ چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی، حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔ پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلا ڈر کر بھاگ گیا۔ چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔ اسی طرح کچھ وقت اور گزرگیا۔ کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔ وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔ ایک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔ وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی: ”بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری حکمران ہوں۔ تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔ میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاﺅں۔ میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟ میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کرسکتی ہوں؟ یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھاجاﺅں، بلکہ یہ میرے ساے شاہی خاندان کا حق ہے۔ آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس دن اگر اس بڑے سے بلے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کردیتا۔ یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اورایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔ سارے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔ اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دوچ کر لے جاتے۔ اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ ان کی آزادی ختم ہوگئی۔ وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ”ہماری بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔ آخر ہم نے چل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایاتھا؟ اب کیا ہوسکتا ہے؟ ایسا ہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے ۔ انتخابات کے موقع پر ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ عوام ان کی چکنی چپٹی باتوں پر یقین کرتے ہوئے ان کے دھوکے میں آجاتی ہے اور پھر کامیابی کے بعد یہ لوگ عوام کا خون تک نچوڑ لیتے ہیں۔عوام کو مہنگائی کے منہ زور طوفان کے حوالے کرکے خود مال بٹورنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔عوام کوبے روزگاری کے رحم وکرم پر چھوڑ کر خود اپنی تنخواہوں میں ایک دم تین سو فی صد اضافہ کرکے بھی مطمئن نہیں ہوتے۔ عوام کو بدامنی کے ظالم پنجوں میں جکڑے دیکھ کر بھی خود سکیورٹی کے حصار میں گھومتے ہیں۔ مشکلات میں گھری عوام روز جیتی اور مرتی ہے مگر یہ ان کی زندہ لاشوں پر جشن ِ فتح منانا اپنا پیدئشی حق سمجھتے ہیں۔ان بے حس حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان جو قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے مسائلستان بن چکا ہے۔ہر طرف تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات کے فقدان نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے ۔ عدل و انصاف کی شے کہیں دکھائی نہیں دیتی مگر پھر بھی یہ لوگ حق حکمرانی اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔پتہ نہیں چیل نما ان حکمرانوں سے عوام کو کب نجات ملے گی ؟؟؟ اگر بھولے سے نیب کا ادارہ ان کی لوٹ مار و بد عنوانیوں کا احتساب کرنے لگے تو یہ ایک ہوجاتے ہیں ۔اپنی تقاریر میں ایک دوسرے کو چور وڈاکو کہنے والے نیب کے خلاف ہرزہ سرائی میں ایک چھتری تلے جمع ہوجاتے ہیں ۔احتساب سے بچنے کے لیے اسمبلی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے عوامی خزانے کا قتل عام کرتے ہیں۔ خود کو مقدس گائے سمجھتے ہوئے احتساب سے بالاتر تصور کرتے ہیں ۔معلوم نہیں کب ان سے جان چھوٹے گی اور کوئی صالح قیادت آئے گی ؟؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں