تحریر: ڈاکٹر اشرف چوہان
تعارف
پاکستان کے آئین میں ۲۷ویں ترمیم ایک تاریخی اور دیرینہ ضرورت پوری کرنے والی قانون سازی ہے۔ اس کا مقصد ریاست کے دو بنیادی ستونوں — عدلیہ اور مسلح افواج — میں اصلاحات کے ذریعے ادارہ جاتی ہم آہنگی اور قومی استحکام پیدا کرنا ہے۔ یہ ترمیم اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ حکومت، عدلیہ اور دفاعی ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر مؤثر انداز میں کام کریں تاکہ ایک ادارہ دوسرے کو مفلوج نہ کرے۔
آئینی تبدیلیاں
اس ترمیم کے تحت ایک وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court) کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جو آئینی تشریحات اور وفاق و صوبوں کے تنازعات کے فیصلے کرے گی، جبکہ سپریم کورٹ کو اپیلوں اور عدالتی انتظامی امور تک محدود رکھا جائے گا۔
عدلیہ میں تقرری اور تبادلے کے نظام میں شفافیت اور نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں۔
دفاعی شعبے میں، آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا درجہ دیا گیا ہے تاکہ تینوں افواج میں ایک متحدہ کمانڈ سسٹم قائم ہو۔ اس کے ساتھ اعزازی رینکس جیسے فیلڈ مارشل کو باضابطہ حیثیت دی گئی ہے تاکہ پاکستان کا دفاعی ڈھانچہ جدید ریاستوں کے مساوی ہو۔
تنقید اور اس کی حقیقت
کچھ صحافتی اور سیاسی حلقوں نے اس ترمیم پر تنقید کی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے یا اقتدار کو مرکزیت دینے کی کوشش۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتراضات ان گروہوں کی طرف سے ہیں جو ماضی میں عدالتی مداخلتوں اور سیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو متحرک سیکیورٹی اور جغرافیائی چیلنجز میں گھرا ہوا ہے۔ ایسے حالات میں فوج اور حکومت کے درمیان مضبوط رابطہ کمزوری نہیں بلکہ قومی بقا کی ضمانت ہے۔
عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت
پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عدالتی مداخلتوں نے بارہا منتخب حکومتوں کو کمزور کیا۔
• ۲۰۱۷ میں وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ کیس میں نااہل قرار دیا گیا، جس سے حکومت مفلوج ہو گئی۔
• ۲۰۱۲ میں یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کے الزام میں ہٹا دیا گیا۔
• اس کے بعد راجہ پرویز اشرف کے خلاف بھی عدالتی کارروائیاں ہوئیں۔
ماضی کے کئی چیف جسٹس صاحبان نے ازخود نوٹس کے اختیار (سُو موٹو) کا بے جا استعمال کیا اور عدلیہ کو سیاسی تنازعات کا میدان بنا دیا۔ اس طرزِ عمل نے نہ صرف انتظامیہ کو کمزور کیا بلکہ اصلاحات کے عمل کو بھی روکا۔
۲۷ویں ترمیم اس عدم توازن کو درست کرتی ہے۔ اس کا مقصد عدلیہ کو اس کے آئینی دائرے میں لانا ہے — یعنی عدالتی فیصلوں میں مکمل آزادی مگر پارلیمان کے بنائے ہوئے قوانین کے احترام کے ساتھ۔ یہ آزادی کو محدود نہیں بلکہ نظم و احتساب کو بحال کرتی ہے۔
مسلح افواج کا کردار اور قومی سلامتی
پاکستان کی مسلح افواج غیر معمولی حالات میں کام کر رہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی، ایران کی جانب سے میزائل حملے، افغانستان کی غیر یقینی صورتحال اور اندرونی دہشت گردی نے ملک کو مسلسل دباؤ میں رکھا ہے۔ ان حالات میں ایک مربوط کمانڈ سسٹم ناگزیر ہے۔
۲۷ویں ترمیم فوجی ڈھانچے میں وضاحت، وحدتِ کمانڈ، اور ادارہ جاتی تسلسل پیدا کرتی ہے۔ اس سے فوج کو اپنے آئینی کردار کی انجام دہی میں کسی سیاسی یا عدالتی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہوگا۔
فیلڈ مارشل جیسے اعزازی عہدوں پر اعتراضات بے بنیاد ہیں۔ یہ صرف اعزازی اور علامتی حیثیت رکھتے ہیں۔ حقیقت میں پاکستان کے فوجی رہنما بین الاقوامی سطح پر عزت و احترام کے حامل رہے ہیں، حتیٰ کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پاکستانی فوجی قیادت کی صلاحیتوں کو سراہا۔
جغرافیائی صورتحال اور قومی اتحاد
پاکستان کے اردگرد کی صورتحال انتہائی نازک ہے۔ ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی، افغانستان کی غیر یقینی پالیسی، بھارت کی جارحانہ حکمتِ عملی اور علاقائی خطرات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک کے ادارے متحد رہیں۔
یہ ترمیم پاکستان کو ایک ایسا آئینی فریم ورک دیتی ہے جس کے ذریعے ریاست مؤثر انداز میں دفاعی و داخلی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے، اور تمام ادارے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کر سکتے ہیں۔
نتیجہ
۲۷ویں ترمیم کا مقصد آزادیوں کو محدود کرنا نہیں بلکہ استحکام، نظم و ضبط، اور قومی مقصدیت کو فروغ دینا ہے۔ یہ ترمیم حکومت کو مؤثر حکمرانی کا اختیار دیتی ہے، عدالتی مداخلتوں کو محدود کرتی ہے، اور فوجی قیادت کو ایک واضح کمانڈ سسٹم مہیا کرتی ہے۔
پاکستان میں آج تک کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا، جس کی ایک بڑی وجہ ادارہ جاتی تصادم ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس روایت کو ختم کیا جائے۔
یہ ترمیم پاکستان کو جمہوری تسلسل، آئین کی بالادستی، اور قومی سلامتی کے راستے پر لے جانے والا ایک مثبت قدم ہے۔ پاکستان کی بقا، نظم و ضبط، اور ادارہ جاتی ہم آہنگی ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے — اور ۲۷ویں ترمیم اسی مقصد کی تکمیل کی جانب ایک فیصلہ کن قدم ہے۔




