ضلع جھنگ بے بسی اور لا چارگی کی منہ بولتی تصویر

گزشتہ روز میں اپنے دفتر میں بیٹھا اپنے فرائض و منصبی کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران چند ایک افراد جو بے بسی اور لاچارگی کی منہ بولتی تصویر تھے میرے دفتر میں داخل ہو کر مجھ سے مخا طب ہو کر کہنے لگے کہ آپ وعدہ کرے کہ آپ ہمارا یہ پیغام وزیر اعظم پاکستان عمران خان جو لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی اس اندھیر نگری میں ایک روشنی کی کرن غریب اور بے بس افراد کے دکھوں کا مداور اور مظلوم افراد کا مسیحا جبکہ راشی و ظالم بااثر افراد کیلئے ننگی تلوار کی حیثیت رکھتا ہے کی خدمت اقدس میں ضرور بر ضرور پیش کرے گے کہ ہمارا ضلع جھنگ جس کا کبھی حدود اربعہ شیخوپورہ سمندری خانیوال اور میانوالی سے جا ملتا تھا آج یہاں کے مفاد پرست سیاست دانوں اور اُن کی منظور نظر انتظامیہ جو نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو کر ضلع جھنگ کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے پسماندگی کی راہ پر گامزن کر کے تحصیل شورکوٹ اور تحصیل جھنگ تک محدود کر دیا ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ضلع جھنگ کی باقی ماندہ دو سب تحصیلیں احمد پور سیال اور اٹھارہ ہزاری تو بس ایسے ہی ہیں جیسے انگریز اپنے وفاداروں کو جاگیریں بخشتا تھا بالکل اسی طرح نواز شریف نے احمد پور سیال کی سب تحصیل سیال فیملی کو اور تحصیل اٹھارہ ہزاری چیلہ فیملی کو بخشی تھی یہاں پر افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ یہاں کے مفاد پرست سیاست دانوں اور اُن کی منظور نظر انتظامیہ نے حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ تعمیراتی فنڈز از خود ہڑپ کر کے ضلع جھنگ کو صرف اور صرف کاغذی کاروائی تک محدود رکھا جبکہ عملی طور پر کچھ کرنے سے قاصر رہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ضلع جھنگ کی تمام سڑکیں جس میں ٹوبہ روڈ فیصل آ باد روڈ سرگودہا روڈ اور شورکوٹ روڈ کی سڑکیں سر فہرست ہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر گہرے کھڈوں کی شکل اختیار کر گئی ہیں جن پر سے بھاری ٹریفک کا گزرنا خطر ناک صورت اختیار کر گیا ہے یہی کافی نہیں مذکورہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی سڑکوں سے اٹھنے والی گردوغبار سے لاتعداد افراد مختلف موذی امراض میں مبتلا ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں اور تو اور ضلع جھنگ کے تمام محلوں کی گلیوں میں سیوریج کا ابلتا ہوا گندہ پانی ان ناسوروں جو نہ صرف مذہب اسلام بلکہ انسانیت کے نام پر بھی ایک بد نما داغ ہیں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشا ن ہے اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ وہ ناسور ہیں جو دیمک کی طرح چاٹ کر ضلع جھنگ کو کھو کھلا کرنے میں مصروف عمل ہیں اور تو اور آپ جنرل بس سٹینڈ جھنگ کو دیکھ لیں جو کروڑوں روپے مالیت کی زمین پر کروڑوں روپے مالیت سے تعمیر کیا گیا تھا جہاں پر مسافر خانے پانی پینے کی سبیل کے ساتھ ساتھ لیٹرینیں وغیرہ تعمیر کروائی گئی اور جو وہاں پر پودے لگائے گئے تھے اُن کو سر سبز رکھنے کیلئے بر وقت پانی کی سپلائی کیلئے کروڑوں روپے کی لاگت سے ٹیوب ویل لگوایا گیا تھا لیکن افسوس کہ ان مفاد پرست ناسوروں نے امیر سے امیر تر بننے کے خواب کو پورا کرنے کیلئے شہر بھر کے معروف چوکوں جس میں ایوب چوک سر فہرست ہے پر اپنے اپنے بسوں اور ویگنوں کے ناجائز اڈے قائم کر کے ٹریفک کے نظام کو تباہ و بر باد کر دیا جبکہ دوسری جانب مذکورہ ناسور اپنے اپنے ناجائز اڈوں پر باقی ماندہ بسوں اور ویگنوں کو دس منٹ کھڑا کرنے کے عوض آئے روز لاکھوں روپے جگا ٹیکس وصول کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے تھے لیکن جب ہماری دعاﺅں سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان بنے تو انہوں نے اپنی پہلی فرصت میں ان ناسوروں کے ناجائز اڈوں کا خاتمہ کر کے انھیں جنرل بس سٹینڈ جھنگ میں منتقل کر دیا لیکن افسوس کہ بلدیہ جھنگ کے نیچے سے لیکر اوپر تک کے عملہ کی مجرمانہ خا موشی کے نتیجہ میں مذکورہ جنرل بس سٹینڈ کا ٹیوب ویل غائب جبکہ مسافر خانے پانی پینے کی سبیل کے ساتھ ساتھ لیٹرینیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار جہازوں کی ایئر پورٹ بن گئی جبکہ صفائی کے نہ ہونے کے سبب مذکورہ جنرل بس سٹینڈ پر جگہ جگہ پر غلاظت کے انبار لگ چکے تھے جس کے نتیجہ میں مسافر لاتعداد پریشانیوں میں مبتلا جبکہ اردگرد کی آ بادیاں ان غلاظت کے انباروں سے اٹھنے والے موذی جراثیموں سے مختلف موذی امراض میں مبتلا ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئی ہیں آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان ناسوروں کی عدم توجہ کے نتیجہ میں ریلوے اسٹیشن جھنگ سٹی اور جھنگ صدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بھوت بنگلہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں جہاں پر نہ تو مسافروں کو بیٹھنے کی سہولت اور نہ ہی پانی پینے اور لیٹرین وغیرہ کی کوئی سہولت میسر ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جھنگ سے کراچی جانے والے مسافرو ں کیلئے چند ایک ریلوے کے ڈبے جو شورکو ٹ میں چناب ایکسپریس کے ساتھ لگ جاتے تھے محض اس لیئے ان ناسوروں نے بند کروا دیے چونکہ وہ ڈبے ان ناسوروں کی ٹرانسپورٹ جو جھنگ سے کراچی آتی جاتی تھی پر اثر انداز ہو رہے تھے سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے آپ یقین نہیں کرے گئے لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ وہ ناسور ہیں کہ جہنوں نے نواز شریف پارک جہاں پر معصوم بچے کھیلنے جبکہ بیمار و لا غر افراد سیروتفریح کیلئے آتے تھے کو بھی بڑی بے دردی کے ساتھ لوٹ رکھا ہے ارے یہ تو وہ ناسور ہیں جو تعمیراتی کاموں میں بھی اپنا جگا ٹیکس وصول کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں مذکورہ تعمیراتی کاموں کا ٹھیکیدار بغیر کسی ڈر اور خوف کے ناقص میٹریل کا استعمال کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ جاتا ہے جس کے نتیجہ میں مذکورہ تعمیراتی کام اپنی مدت پوری کرنے کے بجائے چند ہفتوں اور مہیوں میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر علاقے کی عوام کیلئے وبال جان بن کر رہ جاتے ہیں قصہ مختصر کہ ان ناسوروں کی لوٹ کھسوٹ کے نتیجہ میں ہمارا ضلع جھنگ تباہ و بر باد ہو کر رہ گیا ہے جبکہ دوسری جانب ضلع جھنگ کی عوام اپنے تمام تر بنیادی حقوق سے محروم ہو کر اپنے محبوب لیڈر وزیر اعظم پاکستان عمران خان جس کے نامزد نمائندوں کو بھاری اکثریت سے جتوا نے کے بعد اس امید پر یہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ ان کا لیڈر عمران خان ان کے بنیادی حقوق دلوانے میں اپنا اہم کردار ادا کرے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو ضلع جھنگ کی عوام یہ سوچ کر خاموشی اختیار کر لے گی کہ
بڑے میاں تو بڑے میاں
چھوٹے میاں سبحان اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں