محکمہ صحت پنجاب میں شرم ناک کھلواڑ۔حکومت کدھر گم ہے؟

چند روز قبل ایک دوست حافظ االلہ یار کی کال آئی کہ بھتیجے کو کتے نے کاٹ لیا ہے اوکاڑہ گئے ویکسین وہاں نہ ملی لاہور گئے مگر وہاں بھی نایاب ،سمجھ نہیں آ رہی ہم کیا کریں بچے کی زندگی کا سوال ہے، پریشانی میں بردارم عابد مغل(سینئر جرنلسٹ) کے ذریعے محکمہ ہیلتھ اوکاڑہ کے ضلعی افسران سے پتا کرایا مگر بات نہ بنی، ایک میڈیا رپورٹ پر نظر پڑی جس کے مطابق کتے کاٹنے کی ویکسین گذشتہ 8ماہ سے نایاب ہونے کی وجہ سے مریضوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں ،اینٹی ریبیز (Anti Rabies) نامی ویکیسن محکمہ صحت کے ضلعی و تحصیل ہیڈ کوراٹرز تو کیا ،کتے ،سانپ سمیت دیگر جانوروں کے کاٹے کا علاج کے لئے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ لاہور میں بیکٹرولوجسٹ (Becteriologist)کے نام سے سنٹر قائم کیا گیا جہاںروزانہ کی بنیاد پر مریضوں کی تعداد روزانہ100سے زائد ہوتی ہے ،نا اہلی اور مجرمانہ غفلت کی انتہا یہ ہے کہ آٹھ ماہ ہو چلے مگر ویکسین نہیں آئی،انتظامیہ کے مطابق ہم نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سروسز اسلام آباد کو لیٹر لکھ دیا مگر ابھی تک ویکیسن فراہم نہیں کی گئی یہ ویکسین ہر مریض کو مختلف اوقات میں کم از کم چار مرتبہ لگتی ہے، ،تقریبا8ماہ سے انسانی جان کے لئے انتہائی ضروری ویکسین کی عدم دستیابی ہے اندازاً اتنے عرصہ سے ہی موجودہ حکومت برسراقتدار ہے ،خیر سے محکمہ صحت تو پہلے ہی کرپشن سے لتھڑا ہوا اور غریب عوام کے لئے کسی مرض سے زیادہ اذیت ناک ہے سونے پر سہاگہ یہ کہ موجودہ حکومت کو علم ہی نہیں کہ اتنی اہم ویکیسن رورل ،تحصیل، ضلعی مراکز صحت کیا بلکہ لاہور میں سپیشل قائم کردہ مرکز میں بھی نہیں، بس خط و خطابت کرنے کے بعد افسران عالی شان کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے ، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ،صوبائی وزیر صھت ڈاکٹر یاسمین راشداور سیکرٹری ہیلتھ کو علم ہی نہیں اگر ان کی توجہ اس جانب ہو تو انہیں پتا ہو کہ لوگ کس عذاب میں مبتلا ہیں،علم ہے مگر ویکیسن نہیں آئی یا انہیں علم ہی نہیں کہ ویکیسن ختم شد ہے دونوں صورتوں میں ذمہ دار یہی لوگ ہیں،الراقم کا بھی خیال تھا کہ پنجاب میں وزیر صحت ڈاکٹر یا سمین راشد ایک پروفیشنل ہونے کے ناتے حالات کو کنٹرول کر لیں گی مگر محکمہ ہیلتھ کی حالت جو پہلے تھی اب اس سے بھی بدتر ہے صرف صفائی ستھرائی کے لئے ہر ضلع میں متعین سی ای اوز ضرور دورے کرتے ہیں مگر کوئی بہتری ندارد،کتے کاٹنے پر علاج نہ ہو تو مریض کے باﺅلا ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے اور پھر جو حالت اس مریض،اس خاندان کی ہوتی ہے اسے لکھنے کی ہی ہمت نہیں پڑ رہی،مگر جو لوگ ہوں ہی بے حس،نا اہل اور پھر وہ ہوں بھی اعلیٰ اورحساس عہدوں پراس سے بڑی بیڈ گورنس اور کیا ہو سکتی ہے،بہت پہلے کی بات ہے تب اس نوعیت کی ویکسین رورل ہیلتھ مراکز تک میں دستیاب ہوتی تھی ،کئی فلاحی ادارے اور ٹرسٹی ہسپتالوں سے بھی مل جاتی تھی مگر جیسے ہی سرکاری سطع پر یہ نایاب ہوئی وہیں ہر جگہ غائب صرف وہیں شخص خرید سکتا ہے جو مہنگی ترین فارمیسیوں میں جانے کی استطاعت رکھتا ہو مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ایسے لوگوں کو کتے کاٹتے بھی کم ہیں ،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے ملٹی نیشنل کمپنی کے 40کروڑ روپے کی ادائیگی مﺅخر کرنے پر کینسر کے مریضوں کے لئے سﺅٹر لینڈ سے حاصل کی گئی ادویات سکریپ کی نذر ہونے کے قریب ہیں، قابلیت کا عالم دیکھیں کہ محض اس وجہ سے دوائی کو کیڑا لگنے دیا جا رہا ہے کہ اس کی خریداری میں کوئی تھرڈ پارٹی نہیں تھیبعض ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ کینسر کی یہ دوا جناح ہسپتال
لاہور میں موجود ہونے کے باوجود مریضوں کو صاف انکار کر دیا جاتا ہے، کینسر کی یہ دوائی جناح ہسپتال اور میو ہسپتال لاہور،نشتر ہسپتال ملتان،الائیڈ ہسپتال فیصل آباد اور ہولیفیملیسکریپ کی نذر ہونے کے قریب ہیں، قابلیت کا عالم دیکھیں کہ محض اس وجہ سے دوائی کو کیڑا لگنے دیا جا رہا ہے کہ اس کی خریداری میں کوئی تھرڈ پارٹی نہیں تھیبعض ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ کینسر کی یہ دوا جناح ہسپتال لاہور میں موجود ہونے کے باوجود مریضوں کو صاف انکار کر دیا جاتا ہے، کینسر کی یہ دوائی جناح ہسپتال اور میو ہسپتال لاہور،نشتر ہسپتال ملتان،الائیڈ ہسپتال فیصل آباد اور ہولیفیملی راولپنڈی میں ضروت مند مریضوں میں تقسیم کی جاتی ہے،حیرت ہے کہ اس اہم ترین دوا کے متبادل کوئی دوا بھی مارکیٹ میں موجود نہیں اور
کینسرکے شکار زیادہ تر مریضیہی دوا استعمال کرتے ہیں کیونکہ حالت زیادہ خرا ب ہونے پر یہی دوا ان کی بنیادی ضروت بن جاتی ہے، ،سیکرٹری ہیلتھ ثاقب ظفر کے مطابق اس کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم ہو گیا بعد میں اس کی سمری بھی وزیر اعلیٰ کو نہ بھیجی گئی اس کے باوجود علامہ اقبال میڈکل کالج لاہور کے پرنسپل نے دوا خرید لی ،محکمہ صحت اب اس دوائی کی دوبارہ خریداری کے لئے ابھی پالیسی کے گھن چکروں میں عوام کو پیس رہا ہے حالانکہ 2014میں سوئٹرزلینڈ کے ساتھ یہ معاہدہ طے پایا کہ ادویات کی تیاری پر کل اخراجات کا 91فیصد کمپنی برداشت کرے گی اور صرف9فیصد پنجاب حکومت کو ادا کرنے ہوں گیونکہ یہ کمپنی کینسر کے مریضون کے زیادہ تر اخراجات خود برداشت کرتی ہے اس کے باوجود پنجاب حکومت روایتی چکروں میں پڑی ہے صرف9فیصد رقم ادا کرنے پر بھی عوام کی زندگیوں سے خطرناک حد تک کھلواڑ ایسے عمل کو نہ صرف نا اہلی بلکہ کمینگی کا نام بھی دیا جائے تو کم ہے یہ سارا رولا،ساری مصیبت،سارا دکھ ،ساری پریشانی ہے ہی غریب کمیونٹی کے لئے،کیا عجب مذاق ہے خط لکھ دیا تھا ،خط مل گیا تھا،ویکسین آ جائے گی ،ویکیسن بھیج دی جائے گی ،کیا ایسی ویکیسن کو منگوانے یا بھیجنے میں تاخیر انسانیت کہلا سکتی ہے ؟جو بھیجنے میں تاخیر کا سبب ہیں کیا یہ ویکسین ان کے باپ کی رقم سے تیار ہوئی ؟جانوروں کے کاٹے اور کینسر زدہ مریضوں کی زندگیوں کے ساتھ محکمہ صحت کی جانب خطرناک حد تک کھلواڑ،ایسے عوامل کو صرف نا اہلی ہی بلکہ کمنیگی بھی کہا جائے تو کم ہے،بہت بے شرم اور بے غیرت لوگ بہت اچھے عہدوں پر بیٹھ جائیں تو یہ بھی ایک طرح سے خدا کا عذاب ہوتے ہیں اللہ ایسے ذلت آمیز عذاب سے ترستی بلکتی عوام کو نجات دلائے،یہ حکومت کو زچ کرنا چاہتے ہیں یا عوام کو موت کے منہ میں دھکیلنا چاہتے ہیں،کیونکہ ایک عام عقل فہم انسان کو اس بات کا پورا ادراک ہے کہ کسی بھی شعبہ کے بیوروکریٹ مجموعی طور پر حکومتی اقدامات میں خلل کو اپنا فرض سمجھ رہے ہیں مگر جہاں حکومتی اکابرین ہی کھلونا بن چاہیں وہاں ایسے کرداروں پر بھی کیوں ماتم کیا جائے یہ حشر برپا کرنے انسان نہیں بلکہ درندے ہیں اور وہ بھی خبیث،،عوام پھر کسی تبدیلی کی امید رکھے گی یا اسی امید میں مرے گی، اس وقت محکمہ صحت پنجاب کو بظاہر رنگ و روغن ضرور کیا گیا ہے لیکن اگر اسے عوام کے حوالے بہتری سے تعبیر کیاجائے تو بہت بڑا دھوکا ہے،نہ جانے دیگر صوبوں میں صحت کی سہولیات کی فراہمی کس حد تک باعث اطمینان ہے پنجاب میں تو اطمینان نام کی کوئی شئے موجود نہیں صرف یہی ہے کہ صحت کارڈز ضرور دئیے جا رہے ہیں وہ توسابق حکومت نے بھی دیئے تھے،وفاقی وزیر محکمہ صحت ،وزیر اعلیٰ پنجاب اور بر سر اقتدار پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت ہوش کے ناخن لیں یہاں عوام نے بہت امیدیں آپ سے وابستہ کر رکھی ہیں اور آپ نے آنکھیں موند رکھی ہیں، آپ کچھ سمجھ نہیں پا رہے ،سمجھنا نہیں چاہتے،خدارا عوام کو باﺅلا ہونے سے تو بچائیں، ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی (ڈریپ ) کے سربراہ شیخ اختر کو بر طرف کر دیا گیا ہے موصوف نے کولمبو کی اوپن یونیورسٹی سے حاصل کردہ PHDکی جعلی ڈگری سے انٹرویو میں زیادہ نمبر حاصل کر کے یہ عہدہ حاصل کیا تھا ان کے خلاف جعلی ڈگری کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میںبھی زیر سماعت ہے اس کے باوجود وہ کچھ وقت نکال گیا ،ایک طرف ع،ران خان ہسپتا؛وں کی حالت بہتر بنانے اور وہاں مریضوں کے لئے شیلٹر ہومز بناے کا حکم صادر فرما رہتے ہیں اور دوسری طرف ایک طبقہ کھوالڑ میں مصروف ہے،

اپنا تبصرہ بھیجیں