وفاقی کابینہ نے بجٹ2020-21ء کی تجاویز کی منظوری دے دی

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے بجٹ 2020-21ء کی منظوری دے دی ہے، بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا، تنخواہوں اور پنشن کو گزشتہ سال کی سطح پر برقرار رکھا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں آئندہ مالی سال 2020-21ء کی تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں کہا گیا کہ موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ جس کے باعث بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ فیصلہ کیا گیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کٹوتی نہیں کی جائے گی بلکہ تنخواہیں اور پنشن کو گزشتہ سال کی سطح پر برقرار رکھا جائے گا۔

خیال رہے وفاقی وزیر حماد اظہرآج قومی اسمبلی میں 34ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کریں گے، جس میں آئندہ مالی سال کا قومی ترقیاتی بجٹ 1324ارب جبکہ وفاقی ترقیاتی بجٹ650ارب اور صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 674ارب رکھنے کی تجویز ہے،آئندہ مالی سال جی ڈی پی گروتھ کا ہدف2.1 فیصد رکھنے کی تجویز ہے،آئندہ مالی سال میں افراط زر کو 6.5فیصدتک لانے کی تجویزدی گئی ہے،زرعی شعبے کی شرح نمو2.8فیصد،تعمیراتی شعبے کی گروتھ کا ہدف 3.4فیصد، بڑی صنعتوں کی گروتھ کا ہدف منفی2.5 فیصد، خدمات کی شعبے کا ہدف2.6فیصد،بجلی پیداواراور گیس کی تقسیم کے شعبے کی گروتھ کا ہدف1.4فیصدرکھنے کی تجویز ہے۔

واضح رہے یہ تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا بجٹ ہے مالی سال 2020-2021ء کے بجٹ کا حجم 7600 ارب روپے رکھا جا رہا ہے جبکہ ٹیکس آمدن کا ہدف 4950 ارب روپے رکھا جاسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خسارہ 3427 ارب روپے سے زائد رہنے کا امکان ہے۔ سود اور قرضوں کی ادائیگی پر 3235 ارب روپے خرچ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے دفاع کے لیے 1402 ارب روپے خرچ ہوسکتے ہیں۔

وفاقی بجٹ میں پنشن کے لیے 475 ارب روپے خرچ ہونے کا امکان ہے۔ وفاقی وزارتوں اور محکموں کے لیے 495 ارب روپے کا بجٹ رکھا جا سکتا ہے وفاق سبسڈی پر 260 ارب روپے خرچ کرسکتا ہے وفاقی حکومت گرانٹس کی مد میں 820 ارب روپے جاری کر سکتی ہے، وفاق کا ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے رکھا جائے گا. بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن سے متعلق جو فیصلے ہوتے ہیں وہ عمومی طور پر مستقل رہتے ہیں لیکن آئی ایم ایف کی ممکنہ شرائط کے پیش نظر اس سال اس روایت کا قائم رہنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔

اس سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ کورونا وائرس نے پاکستانی معیشت پر کس قدر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اس سے شرح نمو 1952 کے بعد پہلی مرتبہ منفی ہونے جا رہی ہے کاروبار سست روی کا شکار ہیں جس کا براہِ راست اثر ٹیکس آمدن پر پڑے گا۔ برآمدات میں کمی اور ترسیلات زر میں کمی نے بیرونی اکاﺅنٹس پر دباﺅ بڑھا دیا ہے ابھی تک کے اعداد و شمار کے مطابق بیرونِ ملک کام کرنے والے تقریباً 30 فیصد لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جس کا براہِ راست اثر مستقبل میں آنے والی آمدن پر پڑے گا.

آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب اور نوجوانوں کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر پاکستان کو سالانہ 25 لاکھ ملازمتوں کی ضرورت ہے جو صرف اسی صورت حاصل ہوسکتی ہیں جب شرح نمو7 فیصد ہولیکن اس کے برعکس پاکستان کی شرح نمو منفی 1.5 متوقع ہے جس کے نتیجے میں تقریباً 12 لاکھ لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں