آڈیو لیکس کیس میں اہم پیشرفت

اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ میں آڈیو لیکس کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے جہاں جسٹس بابر ستار کو سماعت سے روکنے کی تمام متفرق درخواستیں 5,5 لاکھ روپے جرمانہ لگا کر خارج کردی گئیں۔ تفصیلات کے مطابق آڈیو لیکس کیس میں بشریٰ بی بی اور نجم ثاقب کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس بار ستار کیس کی سماعت کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے، عدالتی معاون چوہدری اعتزاز احسن بھی عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے اعتزاز احسن کو ہدایت کی کہ ’چار متفرق درخواستیں آئی ہیں ہم وہ پہلے سن لیں آپ تشریف رکھیں‘۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ’کس نے درخواستیں فائل کی ہیں؟ ان کا فیصلہ کرنا ہے‘، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’آئی بی، ایف آئی اے، پی ٹی اے نے یہ درخواستیں دائر کیں ہیں‘، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ ’جو درخواستیں آئی ہیں ان کو سن کر فیصلہ کروں گا، آئی بی، ایف آئی اے، پی ٹی اے سنجیدہ ادارے ہیں، ان کی درخواستیں سن کر فیصلہ کروں گا، انہوں نے درخواستیں دائر کیں اس لیے اب میں ان کو سنوں گا‘۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ’کس نے ان کو درخواستیں دائر کرنے کی اتھارٹی دی ہے؟‘ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ ’ڈی جی ایف آئی اے نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو اتھارٹی دی‘، جج نے ہدایت کی کہ ’متعلقہ حصہ درخواست کا پڑھیں جہاں مجھ پر اعتراض کیا گیا ہے‘، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’ایف آئی اے نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی ہے، اعتراض ہے کہ ہائیکورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے، جسٹس بابر ستار سمیت چھ ججز نے انٹیلی جنس ایجنسیز کی عدلیہ میں مداخلت کا خط لکھا‘۔
دوران سماعت ایف آئی اے کی اعتراض کی متفرق درخواست پر جسٹس بابر ستار نے اظہارِ برہمی کیا اور ریمارکس دیئے کہ ’ایف آئی اے کا آئی ایس آئی سے کیا تعلق ہے؟ کیا وہ آئی ایس آئی کی پراکسی ہے؟ آئی ایس آئی کے معاملے سے ایف آئی اے کا کیا تعلق ہے، یہ خط ایف آئی اے سے کس طرح متعلقہ ہے؟ جسٹس شوکت صدیقی کے جو الزامات ہیں اس عدالت کے ججز ان کو سپورٹ کر رہے ہیں، اس عدالت کے ججز نے کہا وہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کو سپورٹ کرتے ہیں، آپ نے خط کا جو حصہ پڑھا یہ آئی ایس آئی سے متعلق ہے، ایف آئی اے سے متعلق تو نہیں ناں؟‘ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے اثبات میں جواب دیا کہ ’جی بالکل ایسا ہی ہے‘۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ’کیا ہائیکورٹ کے ججز کو بلیک میل کرنے سے ایف آئی اے کا کوئی تعلق ہے؟‘ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ایسا تو نہیں ہے لیکن خط میں لفظ اینٹلی جنس ایجنسیز استعمال کیا گیا ہے‘، اس موقع پر جسٹس بابر ستار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی متفرق درخواستیں دائر کرنے کا مقصد عدالتی کارروائی کو شرمندہ کرنا ہے، ہم اور آپ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں بالکل سمجھ رہے ہیں، اگر ایگزیکٹو ججز کو دھمکائے اور ججز توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کریں تو وہ مفاد کا ٹکراؤ کیسے ہے؟ کیا جج ذاتی مفاد کیلئے توہینِ عدالت کی کارروائی کرے گا؟ کیا عدالت آئی بی اور ایف آئی اے کے سارے کیسز سننا چھوڑ دے؟ آپ کی دلیل مان لی جائے تو پھر تو حکومت کے خلاف کوئی کیس ہی نہیں سننا چاہیئے‘۔
بعد ازاں جسٹس بابر ستار نے آڈیولیکس کیس نہ سننے اور دوسری عدالت منتقل کرنے کی ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کی متفرق درخواستیں پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دی ہیں جب کہ انٹیلی جنس بیورو کی متفرق درخواست کی منظوری دینے والے افسر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا گیا ہے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ’اسلام آباد ہائیکورٹ چیئرمین پی ٹی اے اور ممبران کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور عدالتی وقت ضائع کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کرنے سے متعلق بھی دیکھے گی‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں