بھارت سے تجارت کی تجویز ، سارے معاملے کے پیچھے حکومتی وزیر نکلے

اسلام آباد : سینئر تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کے اعلان پر حکومتی و سیاسی حلقے ششدر رہ گئے کیونکہ ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نریندر مودی کے مکتوب کے جواب میں اچھے تعلقات کی خواہش کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کیا گیا تھا۔نوٹس لیا جانا چاہیے اتنا بڑا اعلان کس نے حکومت کو اندھیرے میں رکھ کر کیا،اطلاعات یہ ہیں کہ یہ تجویز اقتصادی کونسل میں عبدالرزاق داؤد نے پیش کی، ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ آخر کیوں انہیں ذاتی مفادات، قومی مفادات سے زیادہ عزیز ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ فوری طور پر اس کا ازالہ کردیا گیا کیونکہ اس کے اثرات کشمیریوں پر پر مرتب ہوتے۔

جہاں تک بھارت سے مذاکرات اور تجارت کا سوال ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑی قوتیں اپنے مفادات کے تحت پاک بھارت تعلقات پر زور دیتی نظر آتی ہیں مگر وہ دونوں کے درمیان سلگتے ایشوز پر کشمیر کے حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کرتی۔
ہمیں ایسی کسی مہم جوئی کا حصہ نہیں بننا چاہیے جس کا مقصد تجارت اور ثقافت کو قبول کرتے ہوئے کشمیر کو التوا میں رکھنے کی تجویز ہو۔

خیال رہے کہ ں مقبوضہ کشمیر کی آئینی صورتحال بحال ہونے تک بھارت کے ساتھ تجارت بحال نہ کرنے کے فیصلے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کشمیر کو حق خود ارادیت دیے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے۔ اصولی مئوقف ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر بھارت کے ساتھ تجارت نہیں ہوگی۔حکومت کے مروجہ قواعد کے مطابق ای سی سی میں مختلف تجاویز پر غور کیا جاتا ہے۔

مختلف شعبوں کی سہولت کاری کیلئے درآمدات کے متبادل ذرائع فوری تلاش کیے جائیں۔ مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی صورتحال بحال ہونے تک بھارت کے ساتھ تجارت نہیں ہوسکتی۔ وزیراعظم نے فیصلہ کیا بھارت سے کسی قسم کی تجارت نہیں کریں گے۔ جب تک بھارت مسئلہ کشمیر پر لچک نہیں دکھاتا،تجارت نہیں ہوگی۔ جب تک بھارت غلط اقدامات پر نظرثانی نہیں کرتا آگے نہیں بڑھیں گے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کابینہ کے سامنے توثیق اور حتمی منظوری کیلئے پیش کیے جاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں