کورونا وائرس کا آغاز:چین اور امریکا کے درمیان تنازع دوبارہ شدت پکڑنے لگا

واشنگٹن: امریکا اور چین کے درمیان کورونا وائرس کے حوالے تنازع دوبارہ شدت اختیار کرنے لگا ہے امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کے بعد صدر جو بائیڈن نے انٹیلی جنس اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ تین ماہ کے اندر رپورٹ تیار کر کے دیں کہ آیا کووڈ 19 بیماری پھیلانے والا وائرس چین میں کسی جانور سے پھیلا یا کسی لیبارٹری میں حادثے سے وائٹ ہاﺅس سے جاری ایک بیان میں صدر بائیڈن نے ایجنسیوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ ایسی معلومات جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی اپنی کوششوں کو دگنا کریں جن سے کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جایا جا سکے اور90 دن میں رپورٹ پیش کریں.

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی ایجنسیاں اس وقت وائرس کے پھیلنے کے دو ممکنہ ذریعوں کے حوالے سے بٹی ہوئی ہیں گذشتہ سال سے دنیا بھر میں پھیلنے والے سارس کوو 2 وائرس سے اب تک دنیا میں 34 لاکھ ہلاکتیں ہو چکی ہیں تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ حقیقت میں یہ تعداد اس سے زیادہ ہے صدر بائیڈن کے احکامات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب وائرس پھیلنے کے حوالے سے متنازع سوال ہو رہا ہے کہ آیا یہ ووہان میں ایک جانوروں کی مارکیٹ سے پھیلا یا اسی علاقے میں موجود ریسرچ لیب سے؟اس سوال کے جواب کے نتائج امریکہ کے لیے اہم ہوں گے اور چین کے لیے بھی کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ وہ وبا کا ذمہ دار نہیں ہے.

امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ (این آئی ایچ) پہلے ووہان میں چمگادڑوں میں کورونا وائرس پر ریسرچ کی فنڈنگ کر چکا ہے مگر اس کا کہنا ہے کہ اس نے ایسے کسی تجربے کی حمایت نہیں کی جس سے وائرس کو مزید بدل کر انسانوں میں منتقل ہونے کے قابل بنایا جائے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے گذشتہ سال اس ریسرچ گرانٹ کو ختم کر دیا تھا.
ووہان سے وائرس پھیلنے کے مفروضے کو حزب اختلاف رپبلک پارٹی کے راہنما اور این آئی ایچ سے وابستہ وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر فاﺅچی اور بیجنگ پر تنقید کے لیے بھی استعمال کر چکے ہیں صدربائیڈن کا کہنا ہے کہ انہوں نے مارچ میں وائرس کی ابتدا کے حوالے سے رپورٹ مانگی تھی کہ کیا یہ بیمار ی جانور سے انسانی رابطے سے پھیلی یا پھر کسی لیب حادثے سے انہوں نے کہا کہ تاحال امریکی انٹیلی جنس ادارے ’دو ممکنہ منظر ناموں پر متفق ہیں مگر اس سوال پر کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں.

وائٹ ہاﺅس کے نائب پریس سیکرٹری کیرن جین پیئر نے صحافیوں کو بتایا کہ انٹیلی جنس اداروں نے ایک ماہ پہلے بائیڈن کو اپنے اس تجزیے سے آگاہ کیا تھا مگر یہ معلومات اب تک خفیہ رکھی گئی تھیں اس سوال کے جواب میں کہ کیا واشنگٹن سمجھتا ہے کہ اس وائرس کو جان بوجھ کر بائیو لاجیکل ہتھیار بنانے کے طور پر استعما ل کیا گیا انہوں نے کہاکہ ہم نے ابھی تک کسی چیز کو مسترد نہیں کیا.

وائرس کے لیب سے لیک ہونے کے مفروضے پر چین انتہائی شدیدردعمل کا اظہار کیاہے جینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاو لیجیان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن سازشی مفروضے اور غلط معلومات پھلا رہا ہے تاہم اس کے باوجود امریکہ میں یہ مفروضہ پھیلتا جا رہا ہے جہاں اسے پہلے سابق صدر اور ان کے مشیروں نے ہوا دی تھی.

واضح رہے کہ چند روز قبل امریکی جریدے ”وال سٹریٹ جرنل“نے ایک امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی کے تین ریسرچر نومبر 2019 میں ایک موسمی بیماری سے بیمار ہوئے تھے جریدے کے مطابق یہ بیجنگ کی جانب سے ایک پراسرار نمونیا کے پھیلاﺅ کی خبر عام کرنے سے ایک ماہ پہلے کی بات ہے وائرس کی شروعات کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ وہ چمگادڑوں میں ابھر اور ان سے ممکنہ طور پر کسی دوسرے جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا.

وبا کے آغاز میں اس خیال کو کافی حد تک قبول کر لیا گیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں کو ابھی تک چمگادڑوں اور دوسرے جانوروں میں ایسا کوئی وائرس نہیں ملا جس کے جنیاتی سگنیچر سارس کوو 2 جیسے ہوں ایسا پہلے نہیں ہوا اس سے قبل سارس اور مرس کی وباﺅں کے دوران بھی کورونا وائرس انسانوں میں منتقل ہوئے اور جلد ہی اس بات کا پتہ لگا لیا گیا کہ یہ سیوٹ نامی جانور اور اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہوئے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے چین بھیجی گئی ایک ٹیم کی تحقیقات میں غیر واضح نتائج سامنے آنے کے بعد امریکہ اور دوسرے ممالک نے وبا کے آغاز کے حوالے سے مزید گہرائی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے دوسری جانب غیر جانب دار سائنس دان زیادہ شفافیت کا مطالبہ کر رہے ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں