سائفر کیس میں سزا سنانے والے جج کو واپس لاہور ہائیکورٹ بھیجنے کی سفارش

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں سزا سنانے والے خصوصی عدالت کے جج کے حوالے سے اہم فیصلہ کرلیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کو اپنے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ میں واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کے کنڈکٹ سے متعلق ہائیکورٹ جج نے ایک فیصلے میں اہم آبزرویشن تحریری کی تھی، جس کے نتیجے میں خصوصی عدالتوں کے انسپکشن جج جسٹس محسن اختر کیانی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو سفارش کی ہے کہ جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کی جائیں۔
بتایا جارہا ہے کہ جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے کنڈکٹ سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس وقت سوال اٹھا جب پی ٹی آئی رہنما عامر مغل کے وکلاء نے درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل بینچ کو بتایا کہ ’انسداد دہشت گردی عدالت نے عدم پیروی پر عامر مغل کی درخواست ضمانت خارج کی لیکن ہم اُس دن عدالت میں پیش ہوئے تو جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے تمام پانچ مقدمات میں آئندہ کی تاریخ دیدی تھی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ٹرائل جج نے عامر مغل کی ایک مقدمہ میں ضمانت خارج کر دی ہے‘۔
اس پر عدالت نے مقدمہ کے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ ’کیا عامر مغل کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے تھے‘؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ’وکلاء پیش ہوئے تھے لیکن عدالت نے دوبارہ پیش ہونے کا وقت دیا تھا‘، تفتیشی افسر نے ٹرائل کورٹ کے آرڈر کا حوالہ دیا تو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ’آپ بتائیں ہمیں جج پر نہیں آپ کی بات پر اعتبار ہے، بتائیں عدالت نے وقت دیا تھا یا کہا تھا کہ فیصلہ سنائیں گے؟‘۔
عدالتی سوال پر تفتیشی افسر نے جواب نہ دیا تو عدالت نے قرار دیا کہ ’یہ تذبذب کا شکار ہے، جواب نہیں دینا چاہتا‘، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عامر مغل کے وکلاء کو دوبارہ مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’آپ ٹرائل جج کے کنڈکٹ پر سنجیدہ سوالات اٹھا رہے ہیں، ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے والے عامر مغل کے وکلاء بیان حلفی جمع کرائیں اور تمام حقائق لکھیں، اگر اس جج نے کچھ غلط کیا ہے تو ہم اس کے خلاف بھی کارروائی کریں گے.

اپنا تبصرہ بھیجیں