سینیٹ انتخابات کی حقیقت

سینیٹ پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا ہے۔ یہ دو ایوانی مقننہ کا اعلیٰ حصہ ہے۔ اس کے انتخابات ہر تین سال بعد آدھی تعداد کی نشستوں کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں اور۔ اور ارکان کی مدت 6 سال ہوتی ہے۔ سینیٹ کا چیئرمین ملک کے صدر کا قائم مقام ہوتا ہے۔ ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 سینیٹرز کے اِس ایوان میں چاروں صوبوں سے کُل 23 ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کُل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور ایک ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔
سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اِس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب سے 12 سینیٹرز کا انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11 سیینیٹرز منتخب ہوں گے جبکہ فاٹا سے 4 اور اسلام آباد سے 2 ارکان ایوانِ بالا کا حصہ بنیں گے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آئندہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایوان کے قیام کی بنیادی وجہ تمام وفاقی اکائیوں اور طاقتوں کو ایک جگہ پر نمائندگی دینا ہے۔ ایوان زیریں یا قومی اسمبلی میں موجود ہر صوبے کی طرف سے برابر تعداد میں ہر ایک کی نمائندگی کا موقع اس ایوان بالا میں دیا جاتا ہے۔ اس وقت اس ایوان بالا میں 104 نشستیں ہیں جن میں سے 18 خواتین کی ہیں –
1971 میں جب پاکستان ٹوٹ گیا تو اس کی ٹوٹنے کے وجوہات میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ حکومتیں چھوٹے صوبوں کو توجہ نہیں دیتی تھیں۔ جب ملک ٹوٹا تو 1971 کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ بنایا گیا تاکہ تمام چھوٹے صوبوں کو بڑے صوبوں کی طرح نمائندگی مل جائے۔ کیونکہ قومی اسمبلی میں تو ہر صوبے سے ارکان اکثریت کے بنیاد پہ منتخب ہوتے ہیں یعنی جس صوبے کی زیادہ آبادی ہوتی ہے وہیں سے زیادہ نشستیں منتخب ہوتی ہیں لیکن سینیٹ میں تمام صوبوں سے ارکان برابر تعداد میں منتخب ہوتے ہیں۔
سمجھنے کی بات کچھ یوں ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیاں تو سینیٹ کے انتخابات کا الیکٹورل کالج ہیں ہی کہ چاروں صوبوں کے صوبائی کوٹے سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوں گے، لیکن اس کے ساتھ فاٹا کے سینیٹرز کا انتخاب، قومی اسمبلی میں موجود فاٹا کے 12 ارکان کریں گے، جبکہ اسلام آباد کے سینیٹرز کا انتخاب بشمول فاٹا اراکین پوری قومی اسمبلی کے ارکان کریں گے۔واضح رہے کہ اب تک سینیٹ انتخابات میں اراکین اسمبلی خفیہ رائے شماری کے ذریعے اپنا سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کاسٹ کرتے تھے اور علم نہیں ہوتا تھا کہ کس رکن اسمبلی نے کس امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔ سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ میں اگر امیدوار کو مطلوبہ تعداد میں ووٹ مل جائیں تو باقی ووٹ اگلے امیدوار کو منتقل ہو جاتے ہیں۔
شو آف ھینڈز جیسی نئی آئینی ترمیم کے بعد اب ووٹ اوپن ہو جائے گا اور علم ہو سکے گا کہ کس رکن اسمبلی نے کس کو ووٹ دیا ہے۔ انتخابی اصلاحات ترمیمی مسودے کے مطابق سینیٹ کے انتخابات سنگل ٹرانسفر ایبل اوپن ووٹ کےذریعے ہوں گے۔اس طریقہ کار کی تبدیلی کے لیے آئین کے آرٹیکل 226، جس میں لکھا ہے کہ ‘سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ووٹ لیا جائے’ اور آئین کے آرٹیکل 59 کی شق 2، جس میں لکھا ہے کہ ‘سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ ہو گا’، میں ترمیم کی جائے گی۔
اِس باب میں حکومت کو ابھی الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا اور سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنا ہے۔ سینیٹ کی 52نشستیں 12مارچ کو خالی ہونے والی ہیں اور سینیٹ الیکشن کے ذریعے جو نئے اراکین منتخب ہوں گے وہ اِن نشستوں کو پر کریں گے۔ اِس بار سینیٹ کے انتخابات اس اعتبار سے خاص اہمیت کے حامل ہیں کہ موجودہ ایوانِ بالا میں اپوزیشن کی نشستیں سرکاری بنچوں سے زیادہ ہونے کے باعث پی ٹی آئی حکومت کو کئی مواقع پر قوانین کی منظوری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت میں شامل پارٹیاں بڑی شدت سے 2021کے سینٹ الیکشن کا انتظار کر رہی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی اور اتحادی پارٹیوں کو سندھ کی صوبائی اسمبلی کے سوا تمام ایوانوں میں اتنی نشستیں حاصل ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں عددی اکثریت ملنے کی قوی امید ہے۔ خیال ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے بعد موجودہ حکومت کے لئے قانون سازی کا کام نسبتاً آسان ہو جائے گا۔ اس کیفیت میں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں شامل پارلیمانی پارٹیاں سینیٹ الیکشن سے قبل اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے ارادے ظاہر کر رہی ہیں جبکہ حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ مختلف اسمبلیوں سے دیئے جانے والے استعفوں کو منظور کر کے خالی نشستوں کو ضمنی انتخابات کے ذریعے پر کیا جائے گا۔ اِس کے جواب میں صوبہ سندھ کے ووٹروں کی عدم موجودگی میں آئینی بحران جیسی صورت کے اشارے دیے گئے۔ دونوں جانب سے قانونی موشگافیاں بھی جاری ہیں۔ اِس منظر نامے میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دو فیصلے کئے گئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی بریفنگ اور باخبر ذرائع کی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک فیصلہ سینٹ الیکشن فروری میں کرانے کا ہے جس کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جائے گا۔ دوسرا فیصلہ سینٹ الیکشن میں سیکرٹ بیلٹ کی بجائے اوپن ووٹنگ کا طریقہ اختیار کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے ریفرنس کی صورت میں رہنمائی حاصل کرنے کا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اِس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ سینٹ انتخاب خفیہ رائے شماری کی بجائے شو آف ہینڈز کے ذریعے کرائے جائیں۔ وزیر اطلاعات سینٹر شبلی فراز نے بھی میڈیا بریفنگ میں کہا کہ سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگتے ہیں،پی ٹی آئی نے اس معاملے میں 20ارکان صوبائی اسمبلی کو اپنی صفوں سے خارج کر دیا تھا۔ بریفنگ کے بموجب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انتخابات کے لئے قانونی اصلاحات کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ پورے انتخابی عمل کو شفاف بنانا ہے کابینہ کے اجلاس میں اٹارنی جنرل آ ف پاکستان خالد جاوید خان نے سینٹ انتخابات کے قانون پر بریفنگ میں آگاہ کیا کہ آئین پاکستان میں اوپن بیلٹ کی بظاہر کوئی ممانعت نہیں،تاہم ان کی سفارش تھی کہ معاملے کی حساسیت اور اہمیت کے پیش نظر آرٹیکل 186 (مشاورتی دائرہ اختیار)کے تحت سپریم کورٹ کی رائے لینا مفید ہو سکتا ہے۔ سینٹر شبلی فراز کے مطابق اگر سندھ اسمبلی نہ بھی ہو تو سینٹ کے الیکشن ہو جائیں گے اِس باب میں جہاں تک قانونی پہلوﺅں کا تعلق ہے ان پر بحث بھی ضروری ہے مگر کیا ہی اچھا ہو کہ کھنچاﺅ اور تناﺅ کی کیفیت سے باہر آنے کی سعی کی جائے اور اپوزیشن سے مذاکرات کر کے سینیٹ الیکشن کی تاریخ اور طریق کار کا تعین کیا جائے۔ ملک کو درپیش چیلنج متقاضی ہیں کہ تمام حلقے قومی مفادات کو اپنی اناﺅں سمیت ہر چیز پر مقدم رکھیں۔ انتخابی اصلاحات اور شفافیت حکومت کی ہی نہیں، اپوزیشن کی بھی ضرورت ہے۔ اِس باب میں مل جل کر جو پیش رفت ہو گی وہ زیادہ بہتر نتائج کی حامل ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں