ڈاکٹرلکڑبھگا؛ جو دماغی اور نفسیاتی علاج کرتا ہے

موغا دیشو: افریقہ میں اب بھی لوگ روایتی اور عجیب و غریب طریقے سے اپنا علاج کراتے ہیں اور اب وہاں کے مرکزی شہر موغادیشو میں لوگ بڑی تعداد میں اپنی فکری پریشانیوں اور ڈپریشن کے لیے ایک لکڑبھگے کے پاس آرہے ہیں جسے اب ڈاکٹر لکڑ بھگے کا نام دیا گیا ہے۔

اب بھی اس ملک میں ہر قسم کے نفسیاتی بیماریوں اور ڈپریشن کو جنوں، آسیب اور بھوت پریت کا اثر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افریقہ میں ان امراض کے لیے جھاڑ پھونک کا عمل عام ہے اور اب اس لوگ لکڑ بھگے جیسے جانور سے اپنا علاج کروارہے ہیں۔

موغادیشو ایک انتہائی غریب ملک ہے جہاں نفسیاتی معالجین کی شدید قلت ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق برسوں کی خانہ جنگی سے پیشہ ور ڈاکٹر اس ملک سے جاچکے ہیں اور اب پورے صومالیہ میں صرف تین مستند نفسیاتی معالج ہی بچے ہیں۔

موغادیشو کے لوگ اس جانور سے علاج کروارہے ہیں جن میں ڈپریشن کا شکار محمد یعقوب بھی شامل ہے۔ تاہم صومالیہ میں ترک ہسپتال کے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ لکڑ بھگے سےعلاج کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ ہوسکتا ہے۔

اسی طرح موغادیشو کے ایک سند یافتہ نفسیاتی معالج ڈاکٹر حبیب نے صومالی باشندوں سے کہا ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنی بیماری کےلیے لکڑ بھگے کے پاس نہ جائیں۔ تاہم صومالیہ میں بڑھتے ہوئے مریضوں کا اصرار ہے کہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنا علاج ایک جانور سے کرانے پر مجبور ہیں۔

ایک خاتون نے بتایا کہ ان کی 13 سالہ بچی بہت بیمار تھی اور ہر جگہ رقم خرچ کرنے کے باوجود اسے کوئی آرام نہ آیا۔ لیکن اب شکر ہے کہ بچی لگڑ بھگے کے علاج کے بعد بالکل تندرست ہوچکی ہے۔

اس کےبعد سادہ لوح لوگ اپنے اپنے علاج کے لیے لکڑ بھگے کے پاس آرہے ہیں۔ اس کا مالک پہلے مریض کی کسی انگلی پر سرخ کپڑے کا ٹکڑا باندھتا ہے اور اس کے بعد لکڑ بھگے کے پاس لے جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ جانور انسان پر حملہ آور ہوسکتا ہے لیکن اس کے مالک کے مطابق گزشتہ چار برس میں کوئی بھی مریض زخمی نہیں ہوا ہے۔

لکڑ بھگے سے ایک مرتبہ علاج کی فیس 10 ڈالر ہے جو پاکستانی روپے میں 1500 روپے کے برابر ہےاور بلاشبہ افریقی ملک کے لحاظ سے یہ بہت زیادہ معاوضہ ہے۔ اگر لکڑ بھگا کافی دیر مریض کے پاس رہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس پر کوئی جن سوار ہے یا آسیب کا سایہ ہے۔ بصورت دیگر جانور مریض کے پاس سے فوری طور پر ہٹ جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں