“ مظلوم اقبال” کون ؟

حضرتِ علامہ !
کیوں ؟ چلئے اُنہی سے پوچھتے ہیں جس نے یہ عنوان دیا ، میں نے تو یہ عنوان مستعار لیا ہے علامہ کے بڑے بھائی کے بیٹے اعجاز احمد سے جو جج ریٹائر ہوے اور علّامہ کی وصیت کے مطابق اُنکی وفات کے بعد علّامہ کے کمسن بچوں جاوید ( جسٹس جاوید اقبال) اور منیرہ ( والدہ صلاح الدین ۔ المعروف میاں صلّیِ) کے ولی مقرر کئے گئے تھے ۔
تفصیل : ایک شام علامہ کی مجلس میں ، حاضرین میں سے ایک نے کہا کہ فلاں صاحب قرآن کریم کی تفسیر لکھ رہے ہیں ، علّامہ زیرِ لب خفیف سا مسکرائے اور فرمایا کہ “ایک زمانے میں حسین رضی اللّٰہ عنہ مظلوم تھے ، ان دنوں قرآن ہے ۔ جو اُٹھتا ہے تفسیر لکھنے بیٹھ جاتا ہے “

اعجاز احمد مزید لکھتے ہیں کہ علّامہ کو کیا معلوم تھا کہ اُنکی وفات کے بعد وہ بھی مظلوموں کی صف میں کھڑے ہوں گے کہ اکثر مشاہیر کی طرح اُنکے متعلق بھی فرضی روایات اور عجیب و غریب قصّے منسوب کر دئیے جائیں گے ۔ اور یوں علّامہ کے بھتیجے نے اپنی یادداشتوں پر مبنی تصنیف کا نام “ مظلوم اقبال” رکھ دیا اور میں نے یہ نام اور کچھ کھٹی میٹھی یادداشتیں اپنے اس کالم کیلئے قارئین کے واسطے “ چُرا” لیں ۔
اگرچہ اس کالم کے ذریعے اُن فرضی اور من گھڑت قصوں کی تصحیح مقصود نہ ہے جو علّامہ سے منسوب ہیں کہ وہ آئیندہ کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں ، تاہم آج کے دن (۹ نومبر ۔ علّامہ کی پیدائش) کی مناسبت سے علّامہ کی کچھ حَسِین یادیں یہاں شئیر کر رہا ہوں ۔

علّامہ کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک عاشق حسین بٹالوی اپنی تصنیف “ اقبال کے آخری دو سال” طبع اوّل ۱۹۵۹ میں لکھتے ہیں کہ “ علامہ ایک سیاسی مفکر تھے ، عملی سیاستدان نہ تھے” لیکن اسکے باوجود مسلمانوں کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔ اسی حوالے سے اعجاز احمد ، اپنی یاد داشتوں پر مبنی تصنیف “ مظلوم اقبال” مطبوعہ ۱۹۸۵ میں لکھتے ہیں کہ وہ اپنے دادا (علامہ کے والد شیخ نورمحمد) کے ہمراہ لاہور میں انجمن حمایتِ اسلام کے ۱۹۱۱ کے سالانہ جلسے میں اپنے چچا علامہ اقبال کا کلام سُننے کیلئے موجود تھے ۔ لوگوں کا ایک جمِّ غفیر علّامہ کو سُننے کیلئے موجود تھا اور اسلامیہ کالج لاہور کے ریواز ہوسٹل کے صحن میں تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی ۔

علّامہ اپنا کلام پڑھ چکے تو ایک بزرگ کشمیری تاجر خواجہ صمد جوکشمیر سے صرف علامہ کا کلام سُننے کیلئے خصوصی طور پر لاہور آئے تھے اور حاضرین میں موجود تھے ، آنکھوں میں فرطِ جذبات سے آنسو لئے سٹیج پر آئے ، والہانہ علامہ سے معانقہ کیا ، پیشانی پر بوسہ دیا اور احتراماً ایک کشمیری شال (دُھسہ) علامہ کے کندھوں پر اوڑھائی ۔ علامہ نے وہ شال نیلامی کیلئے پیش کر دی تا جو رقم آئے وہ انجمن کے کام آ سکے ۔ حاضرین نے بڑھ چڑھ کر بولی لگائی جو ایک خطیر رقم پر ختم ہوئی اور وہ رقم علامہ کی طرف سے انجمن کو ادا کر دی گئی ۔

قارئین ۔ عامیوں کی طرح ان مشاہیر کے گھریلو معاملات /حالات بھی اُن سے کچھ مختلف نہیں ہوتے اور علامہ کی گھریلو زندگی بھی کچھ ایسے ہی واقعات سے عبارت ہے ۔ ایسے ہی ایک گھریلو واقعہ کے متعلق فرزندِ اقبال ، جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی خود نوشت سوانح حیات “ اپنا گریباں چاک” میں لکھتے ہیں کہ اُنکی والدہ (علامہ کی اہلیہ) کا اصرار تھا کہ گھر کے اخراجات پورے کرنے کیلئے علامہ باقائدگی سے وکالت کریں ، مزید یہ کہ کرائے کے گھر میں رہنے کی بجائے اپنا گھر بنوائیں ۔ فرزندِ اقبال لکھتے ہیں کہ اُنہیں یہ منظر کبھی نہیں بھولتا کہ والدہ ، علامہ کے کمرے میں کھڑی اُنہیں کوس رہی ہیں اور روتے ہوے کہہ رہی ہیں کہ وہ سارا سارا دن نوکرانیوں کی طرح کام کرتی ہیں اور پیسے بچانے میں لگی رہتی ہیں ، آپ ہیں کہ ٹس سے مَس نہیں ہوتے ، بستر پر دراز شعر لکھتے رہتے ہیں ۔ جواباً علامہ نے اسی میں عافیت جانی کہ بغیر کچھ کہے کھسیانی ہنسی ہنستے رہے ۔

علّامہ کی محفل میں ہر قسم کے لوگوں کا آنا جانا تھا ۔ پہلوان سے لیکر طبّاخ (شیف) تک ، طلباء سے لیکر علماء تک ، معتقدین سے لیکر قائدین تک ۔

فرزندِ اقبال لکھتے ہیں کہ اُنہیں بچپن میں بڑے لوگوں کی آٹو گراف لینے کا شوق تھا، گو علّامہ اس عادت کو نہ تو سراہتے اور نہ ہی برا سمجھتے ۔ مئی ۱۹۳۶ کی ایک شام علّامہ نے اُنہیں بلوایا کہ آج شام ایک خاص مہمان آنیوالے ہیں ، تم اُن سے آٹو گراف لینا ۔ جب وہ خاص مہمان آ چکے تو وہ کمرے میں داخل ہوے ، ایک دبلے پتلے مگر نہایت خوش لباس ، نگاہوں میں عُقاب ایسی پُھرتی لئے ایک بارعب شخص کو پایا جن کے پہلو میں سفید کپڑوں میں ملبوس ایک با وقار خاتون تشریف رکھے ہوے تھییں ۔ جسٹس جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ یہ اُنکی خالقِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح سے پہلی ملاقات تھی ۔ علّامہ نے قائد سے اُنکا تعارف کروایا ۔ قائد نے انگریزی میں پوچھا کیا تم بھی شعر کہتے ہو ، جواب نفی میں پا کر پوچھا بڑے ہو کر کیا بنو گے ؟ خاموش رہنے پر قائد علّامہ سے مخاطب ہوے کہ یہ تو کوئی جواب نہیں دیتا ۔ علامہ نے عرض کی کہ یہ آپ کی راہنمائی اور ہدایت کا منتظر ہے ۔ علّامہ کی قائد سےمحبّت بلکہ عقیدت دیدنی تھی اور یہ محبت یکطرفہ نہ تھی ۔

قارئین کی یادداشت کیلئے عرض کر دوں کہ علّامہ کے قائد کے نام لکھے گئے ۱۳ خطوط پر مشتمل (مطبوعہ ۱۹۴۳) مجموعے کا دیباچہ قائد نے لکھا اور یہ کم ہی تھا کہ قائد کسی کی کتاب کیلئے دیباچہ لکھتے ۔ یہاں تک کہ جب “ مِیٹ مسٹر جناح” کے مصنف اے اے رؤف نے قائد کے متعلق ایک غلط اور من گھڑت بات (کہ قائد کو اُنکی شادی میں تیس لاکھ کا جہیز ملا) منسوب کر دی اور قائد کی نشاندہی پرمصنف نے قائد سے اُنکی سوانح عمری پڑھنے کی استدعا کی تا اگلے ایڈیشن میں غلطیوں سے مبّرا مسودہ اشاعت کیلئے بھیجا جا سکے تو قائد نے اپنی ہی سوانح عمری پڑھنے سے معذرت کرتے ہوے فرمایا کہ یہ ایک مصنف کا فرض ہے کہ وہ اچھی طرح تصدیق کئے بغیر کسی کی بھی زندگی سے متعلق کوئی واقعہ ضبطِ تحریر میں نہ لائے (بحوالہ “ صرف مسٹر جناح “ مؤلف سیّد شمس الحسن)

علّامہ کی علماء اور اساتذہ سے عقیدت کے متعلق عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہیں کہ مؤرخ اسلام مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی سے اُنکا دہرا رشتہ تھا کہ وہ اُنکے اُستاد بھی تھے اور دوست بھی ، اُنکا جب بھی لاہور آنا ہوتا تو علّامہ کے ہاں ضرور آتے ۔ علّامہ ،مولانا اکبر شاہ خان کے علم و فضل اور تاریخ دانی کے بڑے قدر دان تھے اور مولانا کا یہ عالَم تھا کہ جب تک علّامہ کی صحبت میں رہتے ، خود کم بولتے اور علّامہ کو زیادہ سُنتے ۔ اسی ضمن میں علّامہ کے بھتیجے اعجاز احمد لکھتے ہیں کہ علّامہ کو اگر کوئی فقہی حل مقصود ہوتا تو ہندوستان بھر کے علماء و فقہاء کو چھوڑ کر اکبر شاہ خان کے اُستاد سے رجوع کرتے جو اپنے وقت کے قطب اور اُستاذ الاساتذہ تھے ، یہاں تک کہ ایک وقت علّامہ کو اپنے ذاتی معاملے میں شرعی فتوے کی ضرورت پڑی تو اُنہی سے رجوع کیا ۔

یہ مضمون ابھی تشنہ ہے کہ علّامہ کے موضوع پر لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن کالم کے دامن میں اتنی وسعت نہیں ہوتی ۔ انشاءاللّٰہ اگلے کسی کالم میں مزید لکھوں گا ۔

فی الحال علّامہ کے ایک شعر پر اپنی گزارشات ختم کرتا ہوں کہ یہ ایک شعر اپنے اندر بھر پور پیغام رکھے ہوے ہے ۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارہ