وارث میر حق و صداقت کی توانا اواز——فخر صحافت

تحریر حامد جاوید اعوان

دنیا میں جہاں بھی حق گوئی’ راست بازی کا علم سر بلند ہوگا اور کسی بھی مطلق العنان فرعون وقت کے ظالمانہ اور جابرانہ عہد حکومت اور فسطاآی فلسفہ افکار و نظریات کا پرچار ہوگا وہاں شہید صحافت جناب وارث میر کا نام کلمہ حق بلند کرنے والے اور حق و صداقت کی علامت کے طور پر اس لیے لیا جائے گا کہ انہوں نے سقراط کی طرح زہر کا پیالہ تو پی لیا لیکن حریت فکر اورازادی اظہار رائے پر کوئی آنچ نہیں آنے دی- وارث میر ایک محب وطن پاکستانی’ نہایت شفیق اور مہربان استاد’ آزادی صحافت کے علمبردارروشن خیال لبرل سوچ کے حامی اور قلم کی حرمت و طاقت پر پختہ یقین رکھنے والے ایک ایسے دانشور اور قائد صحافت تھے جن کی پوری زندگی جدو جہد ازادی صحافت میں بسر ہوئی – وارث صحافت وارث میر کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے – درس و تدریس صحافت کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہر فورم پر ببانگ دہل کلمہ حق کہنے میں کبھی کوئی تامل نہیں کیا جس کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی لیکن تاریخ انسانیت میں وہی نام زندہ و تابندہ رہتے ہیں جو کسی بھی مصلحت کا شکار ہونے یاضمیر کا سودا کرنے کے بجائے اپنے قول و فعل میں تضاد نہیں آنے دیتے اور ہر ظلم و ستم اپنی جان پر سہہ کر سچ کا بول بالا رکھتے ہیں وارث میر کا نام اس لیے بھی ناقابل فراموش رہے گا کہ ان سے صحافت پڑھنے اور اصول صحافت سیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ابلاغ عامہ سے وابستہ یہ شخصیات نہ صرف وارث میر کے فلسفہ صحافت اور نظریات کے قائل ہیں بلکہ ممکنہ حد تک افکار و
نظریات وارث میر کو زندہ رکھنے اور نئی نسل تک پہنچانے میں اپنا کردار خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں وارث میر کا قول و فعل تحریریں اور ان کے حوالے سے تحریری مواد اس امر کا گواہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنے طلبہ و طالبات کو بھی اسی بات کا درس دیا یہی وجہ ہے کہ ان کا نام ناصرف عزت و احترام سے لیا جاتا ہے بلکہ ان کے اقوال کو بھی مشعل راہ سمجھا جاتا ہے ایسے لوگ یقینا اپنے دور کے ولی ہوتے ہیں جو کسی بھی ذاتی مفاد اور مصلحت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف اور صرف حق اور سچ کی خاطر بڑی سے بڑی قوت کو بھی منہ توڑ جواب دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں وارث میر کی زندگی بھی اسی تگ و دو میں گزری انہوں نے مشکل حالات دیکھے مصاحب کا مردانہ وار سامنا کیا لیکن اپنے طرز تحریر اور اسلوب میں کوئی کمی نہیں انے دے انہوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے کسی لگی لپٹی کے بغیر پوری سچائی اور ایمانداری کے ساتھ تحریر کیا اسی بنا پر ان کی تحریریں “آ ب زر” سے لکھی جانے کے لائق ہیں انہوں نے عملی صحافت کے جو اصول مرتب کیے ان پر نہ صرف وہ خود سختی سے کاربند رہے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی اور خوش قسمت ہیں وہ طلبہ طالبات جنہیں ان کی رہنمائی حاصل ہوئی اور وہ دوست احباب جنہیں ان کا ساتھ نصیب ہوا اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے لیکن یہ ستون اپنی قوت کے ساتھ اسی وقت تک کھڑا رہ سکتا ہے جب اس میں ناقص مٹیریل کی ملاوٹ شامل نہ ہو مولانا ظفر علی خان اور ان کے بعد وارث میر جیسے صحافی مجاہدین نے صحافت کے جو اجزائے ترکیبی اپنی زندگیوں اور تعلیمات میں راسخ کیے ان پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے صحافت ایک امانت ہے اور اگر صحافی سچا اور کھرا ہو تو وہ نہ صرف دلوں کو مسخر کرتا ہے بلکہ ہر مظلوم کی اواز بنتا ہے اور ظالم اور جابر حکمرانوں کے سامنے بھی کلمہ حق کہنے سے نہیں گھبراتا وارث میر نے صحافت کی جو اعلی و ارفہ اقدار قائم کیں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی اور ان کے چاہنے والے اپنی تحریر و تقریر سے انہیں کبھی فراموش نہیں نے ہونے دیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں