آخرت کا پھندا

باجی ہاجرہ اپنی نئی روحانی طالبہ کے ساتھ میرے سامنے تشریف فرماتھیں جب سے میں نے کالم گالیوں سے دعاﺅں تک لکھا مجھے یقین تھا باجی ہاجرہ ضرور آئیں گی ‘باجی ہاجرہ ڈبل ایم اے کے بعد بہت ساری روحانی کتابوں کا مطالعہ کر چکی تھیں کسی روحانی سلسلے میں بیعت بھی تھیں مجھے استاد کا رتبہ رہتی تھیں روحانیت فطرت میں تھی اِس لیے جیسے ہی شعوری بیداری کی مزلیں طے کیں خاندانی روحانی بزرگ کی شاگردی میں چلی گئی عقیدت واحترام آخری حدوں کو چھوتا تھا مرشد کے حکم کو اللہ نبی کا حکم مانتی تھیں لیکن جب مرشد نے جنسی چھیڑخانی کی حدوں کو کراس کرنا چاہا تو انکار کر کے مرشد کو چھوڑ دیا جوانی میں بہت خوبصورت تھیں جو بھی ان کو دیکھنا اِن کو دیکھتا ہی رہ جاتا پہلے تلخ حادثے کے بعد روحانیت تصوف فقیری درویشی سے باغی ہوگئیں لیکن بعد میں ایک نیک بزرگ بھی ملے جس کے ہاتھ پر بیعت ہو کر روحانیت کی منازل طے کر کے باطن کے اندھیروں کو خدا کے جلوﺅں سے روشن کیا کتب بینی کا حد سے زیادہ شوق تھا اِسی شوق میں میری کتابیں نظر سے گزری تو مُجھ سے رابطہ ہو ا پھر طویل رابطے کے بعد بہن بھائی کا رشتہ استوار ہوا جو کئی سالوں سے قائم دائم ہے جس طرح مجھے فراڈی بابوں روحانیت کے گمراہ صوفیوں سے شدید اختلاف ہے باجی ہاجرہ کو بھی ہے وہ اپنے ماضی اور جوانی کے تلخ تجربوں کی وجہ سے گمراہ صوفیوں کے بہت خلاف ہیں جو فطری روحانی لڑکیوں کے جذبات سے کھیل کر انہیں جنسی طور پر تنگ کر تے ہیں وہ جب بھی ملتی ہیں ہم اِس موضوع پر ضرور بات کر تے ہیں آج جو لڑکی ساتھ آئی تھی وہ بھی روحانی ذوق رکھتی تھی اِس لیے اُس کو لے کر میرے پاس آگئی کہ وہ روحانی مشاورت اور راہنمائی مُجھ سے لے لیا کرے تو میں نوجوان لڑکی کو یہی کہا بیٹا تم روحانی طالبہ ضرور بنو لیکن پہلے میرے پاس کئی مہینے آﺅ میرے معمولات دیکھو میری آنکھ میں بیٹی بہن کی شرم و حیا دیکھو پھر مجھے مرشد یا استاد کا مقام دو جب تک اچھی طرح دیکھ نہیں لیتی کوچہ تصوف میں کو دنے کی غلطی نہ کر نا یہ باتیں کرتے ہوئے مجھے وطن عزیز کی بے شمار لڑکیاں یاد آگئیں جو فطری رحجان کی بدولت کسی بزرگ آستانے پر گئیں لیکن جب وہاں پر جنسی درندوں نے ان پر وار کیا تو وہ ان میں سے بہت ساری توعزت گنوا بیٹھیں باقی ذہنی مریضہ بن کر لوٹیں میرے پاس جب بھی کوئی خوبصورت جوان لڑکی آکر کہتی ہے سر مجھے روحانیت تصوف میں بہت زیادہ دل چسپی ہے تومیں پہلا سوال یہی کر تا ہوں کہ پہلے کسی بزرگ یا روحانی سلسلے میں گئی ہو تو زیادہ تر ہا ں کر کے تلخ تجربے کا بیان کر تی ہیں تو شدید دکھ ہو تا ہے کہ کس طرح جنسی بھیڑیے ڈرامے باز عورتوں سے کھیلتے ہیں چہروں پر بزرگوں کے نقاب چڑھاتے ہوئے کتنی عورتیں ایسے بہروپیوں کے ہاتھ اپنی زندگیوں کو داغدار بنا چکی ہیں وطن عزیز کے چپے چپے پر لاتعدا روحانی شکاری اپنی شکار گاہیں بنا کر دن رات لوگوں کی دولت اور عورتوں کی عزتوں سے بلاخوف و خطر کھیلے جا رہے ہیںموجودہ مادیت پرستی کے دور میں انسان اِس قدر تیزرفتاری سے دوڑے جا رہا ہے اُسے پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ہے وہ اِس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا موجودہ دور کے پیر حضرات بھی الفاظ کی جادوگری فقروں کے سحر سے بزرگوں کے سحر کر نے والے واقعات سے لوگوں کو متاثر کر لیتے ہیں ہر کوئی الفاظ کی جگالی سے بڑے بڑوں کو سحر زدہ کر لیتا ہے اپنے حسن کلام سے عوام کو غلام بنا لیتا ہے پھر تصوف کا قالین بچھا کر لوگوں کی عقیدتوں کا مرکز بن کر بیٹھ کر ہاتھ میں سچے موتیوں مالا پکڑ کر لوگوں کے جذبات کشید کرتا ہے ریشمی عبا قبا میں ملبوس ہو کراپنی بزرگی کا پرچم لہراتا ہے دل نشین باتوں سے آنے والوں کا دل لبھاتا ہے مسکین اور یتیم سی صورت بنا کر اپنی بے نیازی کا اشتہار چلا تا ہے پھر بیچارے مسائل کی چکی میں پسے لوگ ایسے مسند نشین کو پہنچا ہوا بزرگ خدا رسیدہ درویش مان لیتے ہیںراہ سلوک کا کامل صوفی مان لیتے ہیں پھر اپنا پیٹ کاٹ کر مرشد کا لنگر خانہ چلاتے ہیں ۔ اپنا آپ بھو ل کر اُسے یاد کرتے ہیں دل ہی دل میں تصور شیخ کا خیال باندھ کر اللہ رسول کے بعد بلند مرتبہ دیتے ہیں خلوت میں جلوت میں معاشرے میں مرشد کے چرچے جھوٹی کرامات کر شمے بیان کر تے ہیں کرامات کی تسبیح پڑھتے ہیں پھر سارے وسائل دولت خرچ کرنے کوچہ درویش کی رونق بڑھانے کے لیے جوق در جوق غلاموں کی طرح سر جھکائے حاضر ہو تے ہیں آستانوں کی رونق بڑھا تے ہیں مرشد کی جھوٹی باتوں کا اعتبار کر تے ہیں مرشد کی مورتی دل کے مندر میں مسجاتے ہیں مرشد کے فرامین کو ہر جگہ پھیلاتے نظر آتے ہیں شہرت کے ساتویں آسمان پر اڑانے والے اپنے مرشد کو تنہائی میں بیٹھ کر کبھی اپنی سیاہ کاریوں پر بھی نظر ڈالنی چاہیے کہ جیسا میں نظر آتا ہوں یا جیسا لوگ مجھے سمجھتے ہیں میں ویسا ہوں کہ نہیں تو تنہائی میں اپنے محاسبے میں اپنے سارے گندے کرتوت کھل کر سامنے آجائیں گے کیونکہ جیسے تم دنیا میں نظر آتے ہو آخرت میںاگر معاملہ اِس کے برعکس نظر آیا تو تجھے آخر ت کے پھندے سے کون چھڑائے گا کہا جاتا ہے کہ ایک طوائف زادی سے کسی بزرگ نئے کہاتجھے ذرہ بھی خوف خدا نہیں تو بن ٹھن کر اپنی اداﺅں کے سنہرے جال میں لوگوں کو پھنساتی ہے دولت بٹورتی ہے تو طوائف زادی نے پلٹ کر ظاہری نام نہاد بزرگ کی طرف دیکھا اور حیرت کے سمندر میںیہ کہہ کر غرق کر دیا کہ میں جو کچھ ہوں وہ نظر آتی ہوں لیکن ذرہ یہ توفرما ئیے کہ آپ جو نظر آتے ہیں ویسے اندر سے بھی ہیں اور سچ یہی ہے کہ اگر ہم اپنے دامن اور اندر جھانکیں تو میں سیاہ کاریوں کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آئے گا ہر چالاک انسان آخرت کے پھندے سے بے خوف ہے کہ آخر وہ دن بھی آتا ہے تاریخ انسانی کے مشہور بزرگ شیخ ابوالقاسم قشیری اپنی مشہور زمانہ کتاب رسالہ قشیریہ میں مشہور و معروف درویش کامل حضرت جنید بغدادی ؒ کے بارے میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ میرے ماموں اور شیخ مرشد حضرت سری سقطی ؒ نے کئی بار اِس خواہش کا اظہار کیا کاش میری موت بغداد کے باہر واقع ہو اور میں کسی اجنبی گاﺅں کے قبرستان میںاجنبی کے طور پر دفن کر دیا جاﺅں یہ میں اِس لیے چاہتا ہوں کہ کہیں میرے گناہوں کے بوجھ کی وجہ سے میری قبر ہی مجھے قبول کرنے سے انکار نہ کردے اور میں زمانے کے سامنے جو بزرگ بنا پھرتا ہوں رسوانہ ہو جاﺅں یہ خوف خدا کی بات کون بزرگ کر رہا ہے جس کی کامل بزرگی تقوے نیک قرب الٰہی اور پاک بازی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اِن کا مرید حضرت جنید بغدادی ؒ تھا جن کا نام تصوف تقوی بزرگی کے لیے ضرب المثل بن چکا ہے یہ بات وہ نیک انسان کر رہا ہے جسے اپنے عمل پر نہیں خدا کے فضل پر بھروسہ ہو جو جانتا ہے رب کے ہاں چہرہ نہیں عمل کام آئے گا جو یہ جانتا ہے دنیا میں نقاب کام دے جائے گا جبکہ آخرت میں ہر نقاب اُتر جائے گا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں