ادب کے نام پر بے ادبیاں

نشہ کوئی بھی ہو،جان لیوا ہوتا ہے اور پھر یہ شہرت کا نشہ۔ یہ ایک ایسا نشہ ہے جو ہر پارسا،ناپارسا کی جبلت میں پایا جاتا ہے۔شہرت کے بھوکوں کا اپنا اپنا معیار ہوتا ہے۔تکلیف دہ بات تب ہوتی ہے جب ہم منافقت کا لبادہ اوڑھ کر اچھی جگہ سے شہرت حاصل کرنے کا ڈھونگ کرتے ہیں۔میرا اشارہ خود ساختہ ادبی تنظیموں کی جانب ہے۔یہ وہ تنظیمیں ہیں کہ جن کے فرضی ذمہ داران کا حقیقی صحافت میں نہ تو کوئی وقار ہے اور نہ معیار اور نہ ہی کوئی خاص قابل تعریف کام،ماسوائے اس کے کہ ان میں کوئی فلمی ستاروں کارسیا ہے تو کوئی گانوں کی دھن پر جھوم جھوم جانے والا ہے اور کوئی مختلف جگہوں پر ہوتے پروگرام کے لنک سینڈ کرنے والا مداری اور کوئی اپنے پروگرام پر لکھی خود سے روداد مختلف ناموں سے مختلف اخباروں میں بھیجنے والا جادوگر۔کوئی سیگمنٹ اعزازی سند ڈرامہ رچائے ہوئے اور کوئی روبرو ادیب فلم چلائے ہوئے ہے اور کوئی ادبی ایوارڈ کے بعد صحافتی ایوارڈ آغاز فرمائے ہوئے ہے۔خود ساختہ ادبی تنظیمات کے خودساختہ ذمہ داران کی یہ وہ علمی وادبی خدمات ہیں کہ جو آہستہ آہستہ اپنا وقار وساکھ حقیقی علم وادب افراد و قارئین میں کم کرتی جا رہی ہے اور اپنی مرن حالت میں ہیں۔ان سبھی حقیقتوں سے گاہے بگاہے پردہ اٹھتا رہے گا،جن پر میں بعد میں ہی سہی مگر ضرور روشنی ڈالوں گی،فلحال ابھی حال میں ہوئی ایک ”شاندار ‘ ‘ادبی تقریب میں چلتے ہیں جن کی پشت پناہی اوپر بیان کردہ جیسے افراد اور تنظیمات کررہی ہوتی ہے۔ یہاں نہ معیار کو دیکھا جاتا ہے نہ وقار کو۔حال ہی میں ہونے والی ایک ادبی تنظیم کا آنکھوں دیکھا حال ملاحظہ کیجئے۔حال ہی میں ناچیز کو ایک خود ساختہ ادبی ایوارڈ کی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔تنظیم کی بانی ایک خاتون تھی جو ایک کتاب کی مصنفہ بھی تھی،بقول ان کے کہ انہوں نے یہ تنظیم خواتین کی ادبی خدمات کو سراہنے کے لیے قائم کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پروگرام کو عورتوں کے لیے خاص کیا جاتا لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ پروگرام میں چند گنی چنی خواتین موجود تھی جبکہ مردوں کی کثیر تعداد نے پروگرام میں شرکت کی۔ستم یہ ہوا کہ مہمان خصوصی بھی مرد حضرات کو بنایا گیااور مرد حضرات بھی وہ جن کا تعلق ہماری فلم انڈسٹری سے ہے۔تقریب میں خاتون نعت خواں نے نعت پڑھی اور مہمان حضرات نے ان کی پذیرائی کی۔ سٹیج پر موجود خواتین نے اچھی نقابت کر کے مرد حضرات سے خوب داد پائی۔ مہمان خاص کی کرسیاں عورتوں کی جانب رکھی گئی تھی،جن مرد حضرات کے توسط سے مہمان خصوصی یہاں تک پہنچے تھے ان کی نشست بھی ساتھ تھی۔ ہروقفے کے بعد بانی خاتون کی تعریف میں کچھ جملے کہنے سٹیج پر آنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔دوران تقریب سٹیج پرمہمانان خاص کی سلگتی سگریٹ کا دھواں بھی اس تقریب کو ”چارچاند” لگارہا تھا۔ان کے کش لگانے کی وجہ شاید وہ حسین نئی شاعرہ تھی جو اپنے حسن کے جلوے بکھیر رہی تھیں۔ ایک فلم سٹار سے تو رہا نہ گیا اور مائک پکڑ کر اس کے حسن کے قصیدے پڑھنے لگا،جس پر سامعین مردوں نے خوب داد دی جو کہ شاعرہ نے بڑی بے ہودگی سے قبول کی اور اسے عزت سمجھتے ہوئے شکریہ جناب کا اراگ الاپتی رہی۔سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ہمارا ادب اتنا لاوارث اور یتیم ہوچکا ہے کہ اب ہماری بہنوں کو مہرہ بنا کر ادب کی دھجیاں اڑائی جائیں گی۔کیا ادب کے نام پر ہم یہ بےہودگیاں دیکھیں گے۔بے حیائی،لالچ،شہرت کی ہوس کیا ان سب کے حصول کے لئے ادب کے نام کاا ستعمال علم و ادب کے ساتھ کھلواڑ نہیں۔کیا یہ علم و ادب کے ساتھ سنگین مذاق نہیں۔خدارا علم وادب کی محفل میں علم وادب کو فروغ دیں۔ہنسی ٹھٹھا،مذاق اور لادینیت کو نہیں۔ادب کی محفلوں میں اس طرح کی بے ہودگیاں نہیں جچتیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں