انتخابات 8 فروری ہی کو ہوں گے

عام انتخابات کو لے کر ابھی بھی بعض سیاسی حلقوں میں ابہام پایا جاتا ہے۔ گو الیکشن کمیشن ایک سے زائد بار یقین دہانی کروا چکا ہے کہ الیکشن کا انعقاد 8 فروری ہی کو ہو گا مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن بھی حالات کے سامنے بے بس ہو سکتا ہے۔ اس لےے بعض حلقے اس تاریخ پر الیکشن کے انعقاد کو بے یقینی سے دیکھ رہے ہیں۔ ان شکوک کو جنم دینے والی دو وجوہات ہیں۔۔ پہلی وجہ تو وزیرِ اعظم کاکڑ صاحب کی غیر ملکی دوروں کے بعد واپسی پر اصلی مقتدر حلقوں کو دی جانے والی یہ رپورٹ ہے کہ دورہ امریکہ و یورپ کے دوران ہونے والی ملاقاتوں میں ان سے کسی نے الیکشن کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ دیکھا جائے تو ان کے ساتھ یورپی یا امریکی حکمران یا قابلِ ذکر حکومتی نمائندے ملے ہی کب ہیں جو ان سے اس موضوع پر بات چیت کی جاتی۔ اس کے علاوہ سب کو معلوم ہے کہ نگران وزیرِ اعظم کتنے بااختیار ہیں اور اقتدار کے اصل سوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں۔
اقتدار ویسے بھی بہت ظالم چیز ہے۔ یہ تو ایک طرح کی چاٹ ہے۔ جسے لگ جائے پھر وہ بار بار بلکہ ہر بار اس کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ جناب کاکڑ کو تو یہ منصب مفت ہاتھ آیا ہے۔ وہ اس سے دست بردار ہونا کب چاہیں گے۔ شاہانہ پروٹوکول، سرکار ی خرچ پر ایفل ٹاور پر فیملی ڈنر، خصوصی طیار ے پر عمرہ، اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں بطور وزیرِ اعظم شرکت اور ”سیلفی“ کوئی معمولی چیزیں تو نہیں ۔
انتخابات کے مقررہ تاریخ کو انعقاد میں ابہام کی دوسری وجہ مولانا فضل الرحمان کا یہ بیان ہے کہ بلوچستان اور کے پی میں الیکشن کے حوالے سے حالات سازگار نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی سیاست بھی انہی دو صوبوں تک محدود ہے۔ اس وقت گزشتہ ایک سال سے عملی طور پر نگران حکومت کے روپ میں ان کی پارٹی کے پی میں عنانِ حکومت سنبھالے ہوئے ہے۔ گورنر بھی انہی کا ہے۔ ایسی صورت میں مولانا کو الیکشن وارا نہیں کھاتے۔ وہ جانتے ہیں کہ کے پی میں نگرانوں کی ناقص کارکردگی پورا ایک سال لگانے کے باوجود عمران خان کا طلسم نہیں توڑ
سکی۔ اگر کہیں کمزوری ہوئی بھی ہے تو اس کا فائدہ پرویز خٹک اٹھائیں گے۔ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عام انتخابات کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اگر پیپلز پارٹی کی بات کی جائے تو بلاول بھٹو زرداری اپنی انتخابی مہم طوفانی انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بھرپور جلسوں اور اپنے جارحانہ بیانات کی وجہ سے عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔ انہیں یہ شکوہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی لیکن مستقبل قریب میں ان کا یہ شکوہ کسی حد تک دور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آصف زرداری کے چند روز بعد دورہ بلوچستان کے موقع پر قدآور سیاسی شخصیات کی ایک معقول تعداد پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرنے جا رہی ہے۔
مسلم لیگ ن کی بات کی جائے تو میاں نواز شریف نے بغیر شور شرابے کے بہت سے انتخابی اور اتحادی معرکے سر کر لیے ہیں۔ بلوچستان کی بڑی شخصیات اور باپ پارٹی کے علاوہ ق لیگ، ایم کیو ایم، استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ ان کا انتخابی اتحاد ہو چکا ہے۔ سندھ میں مزید اتحاد بننے کے منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ مسلم لیگ ن نے الیکٹیبلز کے لےے بھی اپنے دروازے کھول دیے ہیں جو اس بات کا اشارہ ہیں کہ میاں نواز شریف کو الیکشن مقررہ وقت پر ہونے کا یقین ہے۔ یہ وجہ ہے کہ اب مسلم لیگ ن اپنی انتخابی مہم شروع کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف نے جلال پور جٹاں میں پاکستان مسلم لیگ ن ورکرز کنونشن کے انعقاد سے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کنونشن میں حیرت انگیز طور پر مریم نواز شریف نے اپنی تقریر میں بلاول بھٹو زرداری کو بالکل نظرانداز کر دیا۔ حالانکہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی انتخابی مہم میں مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ مریم نواز شریف کی تقریر سے سمجھنے والے جان چکے ہیں کہ الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنانے کی کوشش کریں گی۔ یہ تمام حالات اس بات کا بھی واضح اظہار ہیں کہ مقتدر حلقے بھی مقررہ تاریخ یعنی 8 فروری کو انتخابات کروانے میں سنجیدہ ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ بھی انتخابات کے انعقاد کو مقررہ تاریخ سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے بھی تمام حالات اور ڈویلپمنٹس پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔ اس نے موجودہ سہ ماہی کی قسط بھی اسی لےے موخر کر دی ہے کہ اسے نگران حکومت کی نیت پر شک ہو گیا تھا۔ اگر یہ قسط رک گئی تو حکومت کے لےے بہت سی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ اس لےے نگران وزیرِ اعظم اور مولانا فضل الرحمان کی تمام تر خواہشا ت کے باوجود الیکشن 8 فروری ہی کو ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں