انتخابات کی کریڈیبلٹی پر حرف نہیں آنا چاہے

چیف جسٹس آف پاکستان کی مہربانی سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جناب باقر نجفی کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ جن کے فیصلے سے انتخابات التوا کا شکار ہو چلے تھے۔
پی ٹی آئی کے وکیل عمیر نیازی نے لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کےے گئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز کے تقرر کو چیلنج کیا تھا۔ جس پر جناب جسٹس باقر نجفی نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز کی تقرری کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں ڈی آر اوز کی جاری ٹریننگ روک دی۔ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ الیکشن اعلان کردہ تاریخ 8 فروری کو شاید نہ ہو پائیں ۔ 15 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کر دی۔ جسے حیرت انگیز سرعت کے ساتھ سنا گیا اور چند گھنٹوں میں فیصلہ بھی ہو گیا۔
جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کرنے والے پی ٹی آئی کے وکیل پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے توہینِ عدالت کا نوٹس بھی جاری کر دیا۔
اگر پی ٹی آئی کے موقف کو دیکھا جائے تو اس کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنرز کو ڈی آر اوز مقرر کرنے سے شفاف اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکے گا۔ جو ڈپٹی کمشنرز ایم پی اوز کے تحت پی ٹی آئی کے لیڈران کو گرفتار کروا رہے ہیں ان سے پی ٹی آئی کو شفاف انتخابات کی توقع نہیں۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو بنیاد بنا کر نیا سیاسی بیانیہ تشکیل دیا ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات سے بھاگ رہی ہے۔ یہ معاملے کو اپنے حق میں ٹوئسٹ کرنے کی کوشش ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی کا مطالبہ ٹرانسپیرنٹ، فیئر اینڈ فری الیکشن کا انعقاد ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں موقف اختیار کیا کہ اس نے ہائیکورٹس سے ڈی آر اوز کے تقرر کے لےے ججز مانگے تھے لیکن ہائیکورٹس نے انکار کر دیا۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ چیف جسٹس آف لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ پہلے الیکشن شیڈول کا اعلان کریں اس کے بعد اس معاملے کو دیکھا جائے گا۔ اگر پی ٹی آئی کا موقف درست ہے تو چیف جسٹس آف پاکستان کو ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے رابطہ کر کے پوچھ لینا چاہیے تھا۔ اگر ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان ججز کے بطور ڈی آر اوز اور آر اوز تقرر کی حامی بھر لیتے تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جاتا۔
پی ٹی آئی کے ڈی آر اوز پر کنسرن بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ 1977 میں ہم ایسی پریکٹس کا نتیجہ بھگت چکے ہیں جب ڈی سی اور اے سی صاحبان ڈی آر اوز اور آر اوز مقرر کےے گئے تھے۔ تب ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ خالد کھرل نے ذوالفقار علی بھٹو کے مدِ مقابل جان محمد عباسی کو غائب کروا کر کاغذاتِ نامزد گی جمع نہیں کروانے دیے تھے۔ بھٹو بلا مقابلہ یہ سیٹ جیت گئے تھے۔ وہ اس وقت وزیرِ اعظم تھے۔ الیکشن ہوتے بھی تو انہوں نے جیت جانا تھا مگر بھٹو صاحب نے جیتنے کے لےے غلط ہتھکنڈا استعمال کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ معاملہ بین الاقوامی سطح تک خوب اچھالا گیا۔ ان انتخابات میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی اور اس کا نتیجہ پی این اے کی تحریک سے ہوتا ہوا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی صورت میں نکلا۔
جہاں تک ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز کی تقرری کا تعلق ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر موجود ہیں۔ ان کی خدمات اس عہدے کے لےے کیوں نہیں لی جاتیں؟
8 فروری کے انتخابات میں ڈی آر اوز جو بھی ہوں۔ شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ملک کے لےے بے حد ضروری ہیں۔ ان انتخابات کی کریڈیبیلٹی پر انگلیاں نہیں اٹھنی چاہےیں۔ ماضی میں الیکشن کے نام پر اکثر سلیکشن ہوتی رہی ہے۔ سیاستدان اقتدار کی خاطر اپنی مرضی سے ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی لاڈلا رہا ہے۔ لاڈلا بننے کی کوشش سبھی کرتے رہے ہیں۔ جو نہیں بن پاتا وہ اپنے آپ کو انقلابی ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ سیاستدانوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچی ہے۔ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہےے۔ اقتدار ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ دنیاوی جاہ و حشم میں پائیداری نہیں ہوتی۔ کتنے ہی سرِ پُر غرور خاک میں مل گئے۔ خود کو ناگزیر اور واحد آپشن سمجھنے والوں کا نام بھی آج کسی کو یاد نہیں۔ بہتر ہے کہ اب ذاتی اقتدار کی بجائے وطنِ عزیز اور اس میں بسنے والے 25 کروڑ عوام کا سوچا جائے۔ معیشت کی بحالی اور قومی وقار پر توجہ دی جائے۔ عوام کو صرف الیکشن کے دنوں میں قابلِ توجہ سمجھنے کے بجائے ان کے دیے گئے مینڈیٹ کا بھی احترام کیا جائے۔
اس وقت صرف پی ٹی آئی کو نہیں پیپلز پارٹی کو بھی الیکشن انتظامات پر تحفظات ہیں۔ اگر ان کی آواز کے ساتھ مزید آوازیں شامل ہو گئیں تو معاملات 1977 جیسے بھی ہو سکتے ہیں۔ خدانخواستہ ایسا ہونے کی صورت میں کوئی بڑا سانحہ جنم لے سکتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں ملک
کسی سانحے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بہتر ہے کہ ماحول میں گھٹن اور حبس میں کمی کی جائے۔ تازہ ہوا کے لےے کوئی در کھولا جائے۔ گزشتہ انتخابات میں پولنگ کے بعد دھاندلی کے الزامات لگا کرتے تھے۔ اس مرتبہ الیکشن سے پہلے ہی یہ الزامات لگنا شروع ہو گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں