سیاست دان ماضی سے سبق سیکھیں

یہ 1977 کی بات ہے۔ عام انتخابات کا دور دورہ تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وزیرِ اعظم تھے۔ انہی کی نگرانی میں انتخابات ہو رہے تھے۔ ان کی جماعت اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ ان کے مدِ مقابل نو جماعتوں کا الائنس پاکستان قومی اتحاد کے نام سے مدِمقابل تھا۔ اس اتحاد میں زیادہ تر مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔ تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام پی این اے کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو گئے تھے۔
1977 میں منعقد ہونے والے یہ انتخابات اب تک کی پاکستانی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات ثابت ہوئے۔ وہ انتخابات عدلیہ کی بجائے انتظا میہ نے کروائے تھے۔ ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز ریٹرننگ اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرز تھے۔ پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی بے پناہ مقبولیت سے بھٹو خائف تھے اور اس الائنس کی عوامی پذیرائی دیکھ کر انہیں اپنی شکست نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اپنا حلقہ انتخاب لاڑکانہ تھا۔ وہ وقت کے وزیرِ اعظم اور بہت بڑے جاگیردا ر تھے۔ ان کے مقابلے میں کسی کا چراغ جلنا ممکن نہ تھا۔ فیصلہ ہوا کہ بھٹو کے مقابلے میں مولانا جان محمد عباسی کو الیکشن کے اکھاڑے میں اتارا جائے۔ اس وقت خالد کھرل ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ تھے۔ وہی ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر بھی تھے۔ یہ وہی خالد کھرل ہیں جو بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے اور بے نظیر بھٹو کے دور میں وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات بھی رہے تھے۔ خالد کھرل نے مولانا جان محمد عباسی کو اس وقت اغوا کروا لیا جب وہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے جا رہے تھے ۔ اس طرح ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ سے بلامقابلہ جیت گئے۔ یہ بھٹو کی ایک بڑی غلطی تھی۔ جان محمد عباسی کا ان سے مقابلہ ہی نہیں بنتا تھا۔ وہ آسانی سے یہ نشست جیت جاتے مگر انہوں نے بلامقابلہ جیتنے کے شوق میں ایک غلط قدم اٹھا لیا۔ بھٹو کی اس دھاندلی کا شور بین الاقوامی سطح پر بھی گونجا اور اس کے کردار پر لگا ہوا یہ دھبہ آج بھی نمایاں ہے۔
دیکھا جائے تو 8 فروری 2024 کو منعقد ہونے والے انتخابات اور 1977 کے انتخابات میں کافی حد تک مماثلت پائی جا رہی ہے۔ اب بھی انتخابات جوڈیشری کی بجائے ڈی سی اور اے سی صاحبان کروا رہے ہیں۔ تب ایک جان محمد عباسی کو کاغذات جمع نہیں کروانے دیے گئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق اب کے درجنوں امیدواروں سے کاغذات چھینے گئے ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو زیادہ شدت سے دوہرا رہی ہے۔ سیاسی ماحول میں جبر اور گھٹن بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ پہلے انتخابات ہیں جو انعقاد سے قبل ہی متنازعہ ہو گئے ہیں۔ عوام اس صورتِ حال کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ 2018 کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔ میاں نوازشریف اور مسلم لیگ ن کو پاکستانی سیاست سے باہر رکھنے کی پوری کوشش کی گئی۔ الیکشن سے قبل وفاداریاں تبدیل کروائی گئیں ۔ یہاں تک کہ کاغذاتِ نامزدگی جمع ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کا ٹکٹ بھی بعض امیدواروں سے واپس کروایا گیا۔ الیکشن میں تمام تر انجےنئرنگ کے باوجود عمران خان کے حق میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کےے جا سکے تو باقی کسر جناب جہانگیر ترین کے جہاز نے پوری کر دی۔ عمران خان بدقسمتی سے اقتدار کو سنبھال نہ پائے۔ وہ عملی طور پر ناکام حکمران ثابت ہوئے۔ عوام کی بہتری اور ملکی ترقی کی بجائے ان کی تمام تر توجہ مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے اور کچلنے پر مرکوز رہی۔ عوام ان کی خالی بڑھکوں اور بے عملی سے اکتا گئے۔ ان کے ورکرز نے اپنے حکمران لیڈر کا دفاع کرنا چھوڑ دیا۔ وہ غیر مقبول ہونے کے سفر پر تیزی سے گامزن ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں جناب آصف زرداری اور میاں شہباز شریف نے ان کی حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر کے اپنے پاﺅں پر ایسی کلہاڑی ماری کہ اس کا زخم مندمل ہوتے ہوتے عرصہ بیت جائے گا۔ انہوں نے عمران خان کی مردہ ہوتی ہوئی سیاست کو پھر سے زندہ کر دیا۔
عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کی بجائے قومی سلامتی کے ضامن اداروں کے خلاف جنگ چھیڑ کر بڑی سیاسی غلطی کر ڈالی جس کا خمیازہ وہ اور ان کے ساتھی بھگت رہے ہیں۔ 9 مئی کے واقعات مسلم لیگ ن کے حق میں بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا جیسے ثابت ہوئے۔ میاں نواز شریف ایک مرتبہ پھر ڈارلنگ بن گئے۔ ان کے ساتھ 2017 میں اقتدار سے نکال کر جو زیادتی کی گئی تھی اور 2018 میں ان کی پارٹی کو جو نقصان پہنچایا گیا تھا وہ موجودہ حالات کو اس کے ازالے کے طور پر لے رہے ہیں ۔ اسی لےے وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی ہر کارروائی پر مہر بہ لب ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنی زندگی کا مشکل ترین الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومتی کارکردگی کے تمام تر ڈس کریڈٹ کا سامنا مسلم لیگ ن کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر عمران خان کو اقتدار سے نہ ہٹایا جاتا تو آج پی ٹی آئی کی حالت مسلم لیگ ق جیسی ہوتی۔ وہ انتخابات میں بہت پیچھے نظر آتی۔
عمران خان 9 مئی کو بھگت رہے ہیں۔ میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے جا رہے ہیں مگر پی ٹی آئی کو جس طرح ہاتھ پیر باندھ کر انتخابی عمل سے دور کیا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی جیت کی کیا کریڈیبلٹی رہ جائے گی۔ ہمارے ہاں سیاسی ادارے ایسے واقعات کی وجہ سے ہی کمزور رہ گئے ہیں۔ صرف جیت کے لےے ”ان فیئر مِینز“ سے گریز کرنا چاہےے۔ سولہ ماہ کا اقتدار لینا بڑی غلطی تھی۔ موجودہ طریقہ کار سے اقتدار لینا اس سے بھی بڑی غلطی ہے۔ سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہےے۔ عوام کو اجازت اور اختیار دیا جانا چاہےے کہ وہ اپنے نمائندے اپنی مرضی سے منتخب کر سکیں۔ سیاسی داﺅ پیچ ضرور استعمال کریں۔ دوسرے کی طاقت سے گرے ہوئے پہلوان کی
چھاتی پر پاﺅں رکھ کر فتح کے جھنڈے گاڑنے سے فتح مشکوک ہو جاتی ہے۔
جان محمد عباسی کو اغوا کروانے والے بھٹو کے انجام کو ذہن میں رکھ کر فیصلے کیجےے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پی این اے جیسی کسی تحریک کی راہ ہموار ہو جائے۔ ماضی سے سبق سیکھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں