اقتدار کی ہوس

ترکستان کے بادشاہ کی ایک ہی خواہش تھی وہ ہمیشہ زندہ رہے بالکل صحتمند ،چاک و چوبند اور بیماریاں اسے چھو کربھی نہ گذریں اس نے شاہی طبیب کو بلاکر اپنی خواہش کااظہار کردیا شاہی طبیب نے بادشاہ کی عجیب و غریب اور نہ معقول بات سن کر پریشان ہوگیا اس نے بادشاہ سے کہا ظل ِسبحانی جان کی امان پاﺅں کو عرض کروں کہ ایسا ممکن ہی نہیں
کیوں ممکن نہیں۔۔۔ بادشاہ نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا تم شاہی طبیب کس مرض کی دوا ہو اتنی مراعات۔۔ ریاست میں سب سے زیادہ مشاہرہ تمہیں مل رہاہے دنیا میں ہر مسئلے کا حل ہے ایسا کیوںنہیں ہوسکتا۔
”آپ ایسا کیوں چاہتے ہیں شاہی طبیب نے مرے مرے لہجے میں پوچھ ہی لیاولی، پیغمبر،رسول الغرض کہ ہر جاندار مخلوق نے موت کا مزا چکھناہے
”اس لئے کہ میں مرنا نہیں چاہتا بادشاہ نے ترت جواب دیا جتنی دولت خرچ ہوتی ہے پرواہ نہ کرو کوئی ایسی دوا تیارکرو جو آب ِ حیات کا نعم البدل ہو
”میں تحقیق کرتاہوں جناب شاہی طبیب نے کہا شاید اس کا کوئی حل نہیں آئے ایسی جڑی بوٹیاں یقینا پائی جاتی ہیں جن کے استعمال سے انسان کی عمر میں اضافہ ہو سکتا ہے
” پھر انتظام کرو بادشاہ نے حکم دیا میری خواہش ہے کہ کم از کم 100 سال تک حکومت کروں
چند دنوں بعد شاہی طبیب نے جان چھڑانے کی خاطر بادشاہ کو بتایا کہ میری تحقیق کے مطابق صرف ہندوستان کی سرزمین پر چند ایسی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں آب حیات کی تاثیر ہے آپ اگر وہ جڑی بوٹیاں منگوا لیں تو ہم آپ کو ایک ایسی دواء بنا دیں گے جس کے کھانے کے بعد آپ جب تک چاہیں گے زندہ رہیں گے۔ ترکستان کے بادشاہ نے شاہی طبیب کی سربراہی میں10 حکیموں، سنیاسیوں اور بادشاہ کے انتہائی قریبی مشیروںکا ایک وفد ہندوستان روانہ کردیا وفد نے ہندوستان کے راجہ کو تحفے تحائف نذر کئے وفد نے ہندوستان کے راجہ کو اپنے بادشاہ کا پیغام پہنچا دیا راجہ نے پیغام پڑھ کرقہقہہ لگایا اور ترک بادشاہ کی عجیب و غریب خواہش سن کر سیخ پا ہوگیا اس نے سپاہی بلوائے اور وفد کو گرفتار کروا دیا۔راجہ گرفتاری کے بعد انھیں سلطنت کے ایک بلند و بالا پہاڑ کے قریب لے گیا، اس نے پہاڑ کے اوپر خیمہ لگواکر بند کروایا دیا پہرے دار مقررکردئےے اور حکم جاری کیا کہ جب تک ایک سال نہ گذر جائے تم لوگ کہیں نہیں جا سکتے ۔ تم میں سے جس شخص نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی اس کی گردن کاٹ دی جائے گی۔راجہ نے اپنا فوجی دستہ وہاں چھوڑا اور واپس شہر آ گیا۔ ترکستانی وفد کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی، وہ پہاڑ کو اپنی مصیبت سمجھنے لگے، مشکل کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں تھا۔ وہ زمین پر سجدہ ریز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے لگے۔ وہ صرف کھانا کھانے، رفع حاجت یا پھر وضو کرنے کے بعد اللہ سے مدد مانگنے کے لیے سجدے میں گر جاتے پھر اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا چنانچہ ایک دن زلزلہ آیا ، زمین دائیں سے بائیں ہوئی، پہاڑ جڑوں سے ہلا اور چٹانیں اور پتھر زمین پر گرنے لگے۔ قیدمیں لوگوں اور سپاہیوں نے بھاگ کر جان بچائی ۔راجہ کے سپاہی وفدکو لے کر دربار میں حاضر ہو گئے، انھوں نے راجہ کو سارا ماجرا سنایا۔ راجہ نے بات سن کر پھرزور دار قہقہہ لگایا اور اس کے بعد ان دس ایلچیوں سے کہا؛ آپ لوگ اپنے بادشاہ کے پاس جاو¿، اسے یہ واقعہ سناو¿ اور اس کے بعد اسے میرا پیغام دو، اسے کہو: وفدکے10 لوگوں کی بددعا جس طرح پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر سکتی ہے بالکل اسی طرح لاکھوںکروڑوں عوام کی بددعا ئیں بادشاہ کی زندگی اور اقتدار دونوں کو خاک میں ملا سکتی ہیں ۔ تم اگر لمبی زندگی اور طویل اقتدار چاہتے ہو تو لوگوں کی بد دعاو¿ں سے بچو، تمہیں کسی دوا ، کسی جڑی بوٹی کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ لگتاہے یہ کہانی پاکستان کی اشرافیہ اور حکمرانوںکو پڑھانے کی ضرورت ہے جو40-40سے اقتدارپر قابض ہیں پھر بھی حکمرانی کی ہوس نہیں جاتی جن کی سوچ یہ ہے کہ ان کے بغیر یہ دنیا نہیں چل سکتی یہ کہانی ان کے لئے عبرت کا باعث ہوسکتی ہے جو سرا سارا د ن پروٹوکول انجوائے ہیں اور عوام ان کی وجہ سے گھنٹوں ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں ۔۔ یقین جائےے ایہ کہانی ان کے لئے مشعل کا کام دے سکتی ہے جو سرکاری دفاترمیں چھوٹے چھوٹے کاموںکے لئے عوام کو خجل خوار کرنا ثواب سمجھتے ہیں۔۔ یہ کہانی پڑھ کر حکمرانوںکو غور کرنا چاہےے کہ عوام غربت ،بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ ہیں یہ پاکستانی ہیں جو روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں لیکن بے بس ،مجبور ہےں کچھ نہیں کرسکتے ہر حکمران نے عوام کو ر لانا اپنا فرض سمجھ لیاہے اورہر سیاستدان اپنے مخالفین کو عبرت کا نشان بنا ناچاہتاہے عام آدمی کہاں جائے اشرافیہ نے حالات اتنے خراب کردئےے ہیں جس کے پاس وسائل ہیں ہر وہ پاکستانی بیرون ِ ملک جانے کے لئے پرتول رہاہے اس کا بین ثبوت پاسپورٹ آفس میں لگی لمی لمبی قطاریں ہیں افسوس صد افسوس حکمرانوںکو پھر بھی ہوش نہیں آرہا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں