انتخابات کے نتائج اور شکوک وشبہات

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں بارہویں عام انتخابات کا انعقادآٹھ فروری2024 کو ہوا عام انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیوں نے اپنی انتخابی مہم نیم دلی سے چلائی کیونکہ سیاسی پارٹیوں میں الیکشن کے انعقاد میں شکوک و شبہات پائے جاتے تھے سب سے کامیاب الیکشن مہم پاکستان پیپلز پارٹی نے چلائی پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ملک کے مختلف شہروں میں کامیاب جلسوں میں پیپلز پارٹی کے روٹھے ہوئے ووٹر کو جگانے کے لئے خوب زور لگایالیکن پی پی پنجاب میں کھوئی ہوئی سیاسی قوت بحال کرنے میں ناکام رہی البتہ سندھ میں پی پی پی کو بے نظیر کامیابی ملی مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم بہت دیر سے شروع کی ان کے ورکرز میں ایک بات کھلے عام سنائی دیتی رہی کہ” ہماری بات ہو چکی ہے“ اور یہی بات مسلم لیگ ن کی ناکامی کی بڑی وجہ بھی بنی دوسری اہم وجہ الیکشن کے روز اپنے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لانے میں ناکام دکھائی دیئے پاکستان تحریک انصاف کے بانی پابند سلاسل رہے اس پارٹی کاانتخابی نشان تک چھین لیا گیا ان کے ٹکٹ ہولڈرز کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا کاغذات جمع کروانے سے لے کر الیکشن کے روز تک انہیں انتخابی مہم میں آزادانہ طور پرحصہ نہیں لینے دیا گیا تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا ان کے ہر امیدوار کے انتخابی نشانات الگ الگ ملے تحریک انصاف کے خلاف ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ان کی الیکشن مہم نہ ہونے کے برابرتھی ملک کے کم و بیش ہر شہر میں انتظامیہ نے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو جی بھر کر تنگ کیا ان کے امیدواران اور سپورٹرز کو پابند سلاسل کیاگیا اس کے باوجود الیکشن کے روز پی ٹی آئی کے ووٹرز نے دیوانہ وار پولنگ اسٹیشن کا رخ کیا کیونکہ پی ٹی آئی کے ووٹرز میں یوتھ سرفہرست ہے سوشل میڈیا کا خوب استعمال کیا دو کروڑ سے زائدنئے ووٹرز جن کی عمریں 18 سال سے 30 سال تک کی تھیں انہوں نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو نہ صرف سوشل میڈیا پر سپورٹ کیا بلکہ الیکشن ڈے پر پولنگ اسٹیشن پر پہنچ کر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ بھی دیا اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ساتھ اپنی بے لوث محبت کا کھلے عام اظہار کیا الیکشن کے روز کوئی بڑا واقعہ پیش نہیںآیا مجموعی طور پر الیکشن پرامن ماحول میں ہوئے پولنگ صبح آٹھ بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک بغیر کسی وقفے سے ہوئی گنتی کے بعدمختلف نجی نیوز چینلز سے جب غیر حتمی ابتدائی نتائج کا اعلان شروع ہوا تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوارآگے دکھائی دیئے مسلم لیگ ن کے بڑے بڑے برج شکست کھاتے نظرآئے پھر اچانک ماحول تبدیل ہواہمیشہ کی طرح انتخابی نتائج سسٹم کی خرابی کی بنا پر روک لئے گئے حالانکہ سسٹم میں خرابی نہیں تھی بلکہ انتخابات کے بعد بننے والے سسٹم کو خراب کرنے اور اپنے من پسند امیدواران کو جتوانے کے لیے نتائج میں تبدیلی کا مرحلہ شروع ہوا جو ہزاروں کی لیڈ سے جیت رہے تھے وہ ہزاروں کی لیڈ سے ہارے سرکاری نتائج کے اعلان میں تاخیر کئے جانے سے انتخابات میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے دیہی اور دور دراز علاقوں کے رزلٹ پہلے آئے جبکہ ملک کے بڑے شہروں لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی ،فیصل آباد، ملتان، کراچی کے نتائج تاخیر سے آئے کراچی کے نتائج تو بہت ہی تاخیر سے آئے ابتدائی نتائج سے یوں لگ رہا تھا جیسے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار بڑی تعداد میں جیت جائیں گے یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ابتدائی نتائج کے بعد مایوس ہوئے اور وکٹری تقریر کئے بغیر ہی واپس لوٹ گئے ملک بھر میں عام انتخابات کے نتائج مکمل ہونے کے قریب ہیں اب تک موصول غیر حتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن 76 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن گئی آزاد امیدوار100سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوگئے جن میں سے 92 کوپی ٹی آئی کی حمایت حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی نے 54 نشستیں جیت لیں، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 17 نشستوں پر کامیاب ہوگئی۔ مسلم لیگ ق اور جے یو آئی تین تین نشستوں پر کامیاب ہوگئی جبکہ استحکام پاکستان پارٹی نے دو اور مجلس وحدت المسلین، مسلم لیگ ضیاءاور بلوچستان نیشنل پارٹی نے ایک ایک نشست جیت لی۔ اگر صوبوں کے نتائج پر نظر ڈالیں تو پنجاب میں مسلم لیگ ن بڑی پارٹی بن کر ابھری پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران بھی سو نشستوں سے زائد جیت گئے پی پی بھی دس نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ،کے پی کے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار پہلے نمبر پہ رہے سندھ میں پی پی پی پی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور بلوچستان میں پی پی پی بڑی پارٹی بن کر ابھی دوسرے نمبر پہ مسلم لیگ جیتی جبکہ تیسرے نمبر پہ جے یو آئی کو نشستیں ملیں حالیہ انتخابات میںبڑے بڑے برج الٹ گئے اب تک موصولہ غیر حتمی نتائج کے مطابق نواز شریف کے پی سے ہار ے جبکہ پنجاب سے جیت گئے، مولانا فضل الرحمان خیبر پختوخوا سے ہار ے اور بلوچستان سے جیتے، جہانگیر ترین اپنی دونوں نشستوں پر شکست کھا گئے عام انتخابات میں ن لیگ کے کئی بڑے پہلوان پارلیمان سے آﺅٹ ہوگئے لاہورسے خواجہ سعد رفیق،شیخ روحیل اصغر اورمیاں نعمان کو شکست کھانا پڑی، رانا مشہود بھی ہار گئے گوجرانوالہ میں مسلم لیگ کی مضبوط تصور کی جانے والی سیٹ بھی گئی،حلقہ این اے 78میں خرم دستگیر شکست کھا گئے فیصل آبادمیں رانا ثنااللہ کو حلقہ این اے 100 سےآزاد امیدوار نثار جٹ نے اپ سیٹ شکست دی، رانا ثنا اللہ کے داماد احمد شہریار پی پی 116 سے اپنے اپنی سیٹ بچا نہ سکے حلقہ این اے 102 میں عابد شیر علی کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ این اے 83 سوگودھا سے محسن شاہ نواز رانجھا بھی پارلیمنٹ سے آﺅٹ ہوگئے۔ ننکانہ کے حلقہ این اے 111 سے برجیس طاہر بھی اپنی سیٹ ہار گئے
میاں جاوید لطیف بھی شکست سے دوچار ہوئے کے پی کے میں پرویز خٹک کی پارٹی بری طرح شکست کھاگئی ۔اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی بھی شکست سے دوچار ہوئی سندھ سے پی پی پی مخالف اتحاد جی ڈی اے بری طرح پٹ گیا جبکہ ایم کیو ایم پاکستان نے اچھی پرفارمنس دکھاتے ہوئے کراچی میں اپنی نشستیں بڑھالیں۔وہ تمام آزاد ممبران اسمبلی جو پی ٹی آئی کی حمایت کے بغیر منتخب ہوئے ہیں ان کی منزل مسلم لیگ (ن) ہے یا پیپلز پارٹی تاہم پنجاب سے تعلق رکھنے والے ممبران قومی و صو بائی اسمبلی کا زیادہ رجحان مسلم لیگ ن کی طرف ہے عام انتخابات میں کامیاب آزاد امیدواروں کا سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا آغاز ہوگیا ہے۔ این اے 54 ٹیکسلا سے بیرسٹر عقیل ملک، این اے 48 سے راجہ خرم نواز اور بلوچستان کے حلقہ این اے 253 سے آزاد امیدوار میاں خان بگٹی نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کردیا جس کے بعد ن لیگ کی نشستوں کی تعداد 73 سے بڑھ کر 76 ہوگئی۔ جبکہ سات آزاد امیدوار وں نے پیپلز پارٹی سے رابطہ کیا ہے حکومت سازی کے مرحلے کا آغاز ہوچکا ہے مفاہمت کے جادوگر آصف علی زرداری کی جادوگری کا وقت شروع ہوچکا ہے اب دیکھنا یہ ہے یہ وہ اپنے لخت جگر کو وزیر اعظم ہاﺅس تک لے جا پاتے ہیں یا پھر وہ خوداپنے لئے ایوان صدرکو منتخب کرتے ہیں یہ سارے کارڈز مفاہمت کے جادو کے ہاتھ میں ہیں ایک بات تو طے ہے نئی حکومت سازی میں آصف علی زرداری اہم اہمیت اختیار کر گئے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں