سیاسی موسم

کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز بھی حرف آخر نہیں، آج کے مخالف کل کو دوست اور اس کے برعکس کل کے مخالف آج دوست ہو سکتے ہیں۔
1960 کی دہائی کے ایک مشہور امریکی گلوکار ‘باب ڈائلن” کے ایک مشہور گیت کا مصرع ہے جسکا اردو میں مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ
“ہوا کا رخ معلوم کرنے کے لیے آپ کو کسی محکمہ موسمیات کے ماہر کی ضرورت نہیں”
واقعی میں حقیقت بھی یہی ہے کہ جب ہوا کا رخ بدل رہا ہوں ہو تو ہر طرف سے آپ اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ پاکستان کا سیاسی موسم اکثر ہی گرم رہتا ہے ہے لیکن اس کی شدت میں شدید اضافہ اس وقت ہوا جب جہانگیرترین صاحب کے ہاں میں تقریبا 40 لیس ممبران نے نے کل کی بیٹھک کے بعد باقاعدہ طور پر “جہانگیر ترین گروپ” کے نام سے اپنے گروپ کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی میں فیصل آباد سے منتخب رکن اسمبلی راجہ ریاض صاحب کو جہانگیر ترین گروپ کا پارلیمانی لیڈرڈر جبکہ پنجاب اسمبلی میں بھکر سے منتخب رکن اسمبلی سعید اکبر نوانی صاحب کو پارلیمانی لیڈر منتخب کر دیا گیا ہے۔ بے شک یہ ایک بڑی خبر ہے جس سے ملکی سیاست میں ہلچل اور میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ سو طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ پہلے تو صرف اپوزیشن ہی تحریک انصاف کی حکومت سے ناخوش تھی لیکن اب تحریک انصاف کے اپنے ممبران، جن کی وجہ سے حکومت قائم ہے وہ بھی اپنی پارٹی سے ناخوش نظر آ رہے ہیں اور کھلم کھلا اس کا اظہار کر رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں نہیں اور نہ ہی کوئی اس سے انجان ہے کہ جہانگیر ترین صاحب بھی وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے 2018 کے الیکشن میں سب سے زیادہ آزاد ممبران (قومی و صوبائی اسمبلی) کو تحریک انصاف میں شامل کروایا یا یا اور پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
بلا شبہ موجودہ حکومت بنانے میں ایک بڑا ہاتھ جہانگیر ترین صاحب کا بھی ہے۔ جہانگیر ترین صاحب کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہم سب تحریک انصاف کا حصہ تھے ہیں اور رہیں گے، لیکن ہماری حکومت میں میں ہمارے ہی لوگوں کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہیں، دباؤ ڈالے جا رہے ہیں اور میرے ہم خیال ممبران کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ حکومت کو سوچنا چاہیے یہ بھی ان کے اپنے ہی ممبرز ہیں ان کی وجہ سے ہی حکومت چل رہی ہے ان کو بھی ساتھ ملائیں اور پیار محبت کا رویہ اپنائیں لیکن پنجاب حکومت نے مسلسل زیادتیاں اور نظراندازی جاری ہے۔
ان زیادتیوں کے خلاف ہم تحریک انصاف میں رہتے ہوئے ہی اپنی آواز اسمبلیوں میں اٹھائیں گے قومی اسمبلی میں آواز اٹھانے کے لئے ہمارے گروپ لیڈر ہونا چاہیے جس وجہ سے ہم نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپنے لیڈران کو ذمہ داری سونپی ہے۔
دوسری جانب جہانگیر ترین گروپ کے اہم رکن، منتخب ایم پی اے نذیر چوہان صاحب سے جب میری بات ہوئی اور میں نے ان سے وجوہات جاننا چاہیں تو انہوں نے بتایا کہ دیکھو قیوم!!
ہم نے الیکشن میں عمران خان صاحب کا بھرپور ساتھ دیا، تبدیلی کا نعرہ بلند کیا اور اس نعرے پر ہی عوام سے ووٹ لیکر اسمبلیوں میں آئے لیکن بدقسمتی سے تین سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہمیں خود کو پنجاب بھر میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی الٹا ہمیں ہی مسلسل نظر انداز کیا گیا، بزدار حکومت ڈلیور کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، اب جب الیکشن میں دو سال کا عرصہ رہ گیا ہے، ہمارے عوام سے کئے گئے وعدوں کو بھی ہمیں پورا نہیں کرنے دیا گیا تو ہم اپنے ووٹرز کو کیا منہ دکھائیں گے۔

نذیر چوہان صاحب دبنگ آدمی ہیں، میں نے مزید استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ اب انشاءاللہ خاموش نہیں بیٹھیں گے جیسا برتاؤ حکومت کرے گی ویسا ہی جواب دیں گے گے اور
“اب یہ سائے مزید نہیں رہیں گے” ہمارے گروپ کا ہر حتمی فیصلہ ہمارے 40 ممبران کی مشاورت سے جہانگیر ترین سب خود کریں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کیا حکمت عملی اپناتی ہے، مستقبل میں مزید کس طرح کے فیصلے ہوں گے۔
حکومت جہاں پہلے سے ہی کی مشکلات کا شکار تھی وہاں اب ایک اور نئے و مشکل امتحان کا سامنا ہے۔ اگر عمران خان صاحب ان ممبران کو نظر انداز کرتے ہیں تو اگلے دو سال حکومت کرنا بہت مشکل ہو جائے گا بلکہ حکومت چل ہی نہیں سکے گی۔
پاکستان کے کپتان کو حکومت چلانے کے لیے ان ناراض اراکین کو راضی کرنے کے علاوہ شاید دوسرا راستہ نہ ہو۔
ایک دفعہ پھر سے پاکستان میں سب سے زیادہ درجہ حرارت اپنے عروج پر ہے ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کیا عمران صاحب اور بزار صاحب ناراض اراکین کو راضی کر سکیں گے؟ حکومت کی مدت پوری ہو پائے گی؟ ان باتوں کو جواب بشرطِ زندگی انشاءاللّٰہ اگلے کالم میں۔ اللّٰہ تعالیٰ پاکستان کے حق میں بہتر کرے۔
اللّٰہ نگہبان

اپنا تبصرہ بھیجیں