اللہ کا عذاب کیوں۔۔۔؟؟

تحریر:دعا علی
duaali.poet@gmail.com

ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاح ملک میں مرد ،مرد سے اور عورت عورت سے شادی کر سکتے ہیں بلکہ بعض ممالک میں”ہم جنس پرستی ‘کا قانون بھی پاس کردیا گیا ہے یعنی وہاں اس کو کوئی بُرا فعل نہیں سمجھا جاتا۔ جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پراسی قبیع فعل کی وجہ زمین الٹ دی گئی تھی ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوا: ”اور لوط کو ہم نے پیغمبر بناکر بھیجا، پھر یاد کرو جب ا±س نے اپنی قوم سے کہا ”کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو ،جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو“۔ مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ”نکالو اِن لوگوں کو اپنی بستیوں سے، بڑے پاک باز بنتے ہیں یہ“۔ آخرِکار ہم نے لوط اور اس کے گھر والوں کو… بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی، بچا کر نکال دیا اور اس قوم پر برسائی ایک بارش، پھر دیکھو کہ ا±ن مجرموں کا کیا انجام ہوا۔(سورہ الاعراف، آیت نمبر 80 تا 84 )۔
یوںقوم لوط کو تباہ و بربادکر دیاگیا ۔اسی طرح جب حضرت شعیب عَلَیہ السلام کی قوم کی گمراہی اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور ہر طرح سے سمجھانے، عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے باوجود بھی یہ لوگ اپنی سر کشی سے باز نہ آئے توان پر اللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہوا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ شیطان سے پوچھا: اللہ پاک کو سب سے بڑھ کر کون سا گناہ ناپسند ہے؟ ابلیس بولا: جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے۔(تفسیرروح البیان، 3/197 )
قیامت کی نشانیوںمیں سے ایک یہ بھی ہے کہ فی زمانہ لوگ بہت ڈھٹائی کے ساتھ ناجائز تعلقات کو بیان کردیتے ہیں اور اب اس فعل کو معیوب نہیں سمجھتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بدکاری وبد فعلی نہیں؟؟
المیہ یہ ہے کہ معاشرے میں معصوم بچیوں کی جانیں محفوظ نہیں ، نہ جانے کتنے ہی بچے اوربچیاں درندگی کا شکار ہوتی ہیں۔
ملک میں آج تک ایسا کوئی لیڈر نہیں آیا جیسے نیک اور ایماندار کہا جا سکے ۔معاشرتی برائیوں کی روک تھام پر کسی نے کبھی توجہ نہیں دی ۔ہمارے حکمران بات تودین اسلام کی کرتے ہیںلیکن عملاً وہ ملک میں اسلام کی عمل داری میں ناکام رہے ۔جب ملک میں فحاشی وعریانی دن بہ دن پھیلتی چلی جائے گی تو ایسی صورت میں عذابِ الہی ٰکو کوئی روک نہیں سکتا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالی ٰسے پوچھا کہ : یا اللہ !جب تو ناراض ہوتا ہے تو تیری کیا نشانی ہوتی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ” دیکھنا جب بارشیں بے وقت ہوں ، حکومت بے وقوفوں کے پاس ہو، اور پیسہ بخیلوں کے پاس ہو، تو جان لینا کہ میں ناراض ہوں، پھر موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ : یا اللہ!جب تو راضی ہوتا ہے تو اس کی کیا نشانی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ”موسیٰ !جب بارشیں وقت پر ہوں
، حکومت نیک اور سمجھ دار لوگوں کے ہاتھ میں ہو ، اور پیسہ سخیوں(سخاوت کرنے والے) کے ہاتھ میں ہو تو سمجھ لینا کہ میں راضی ہوں“۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرے کی طرح بنا دے گا ، ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمایئے تاکہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہی ہیں، اور تمہاری قوم میں سے ہیں، وہ بھی راتوں کو اسی طرح عبادت کریں گے، جیسے تم عبادت کرتے ہو، لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب تنہائی میں ہوں گے تو (حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے)۔ (سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث:4245)۔
قرآن پاک میں ہی ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ”تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں زلزلے نے آلیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے“۔ (سورہ العنکبوت: آیت نمبر 37 )
ایک اور جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے” جس دن ا±نہیں ڈھانپے گا ،عذاب ا±ن کے اوپر اور ا±ن کے پاو¿ں کے نیچے سے اور فرمائے گا چکھو اپنے کیے کا مزہ “(سورہ العنکبوت: آیت 55 )
پھر اللہ تعالی فرماتا ہے” اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا تو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا، یا (جب) وہ دوپہر کو سورہے تھے۔ تو جب ان پر ہمارا عذاب آیا توان کی پکار اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ بیشک ہم (ہی)ظالم تھے“۔(سورہ الا اعراف: آیت نمبر 4 ،5 )
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے” اور ضرور ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے قریب کا عذاب چکھائیں گے (جسے دیکھنے والا کہے) امید ہے کہ یہ لوگ باز آجائیں گے©©“۔(سورہ السجدہ: آیت 21 )۔
بیشک!بے وقت بارشیں، وقفے وقفے سے بارشیں، اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی کا باعث ہیں۔مگر اس کے باوجود ہم عبرت حاصل نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے ”میں آپ کو نصیحت دیتا ہوں تاکہ آپ سبق حاصل کریں اور جو نصیحت نہیں حاصل کرتا میں اسے عبرت کا نشان بنا دیتا ہوں، ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا؟؟ ہم نے تو ایسا کچھ نہیں کیا ۔ہم سے زیادہ گنہگار لوگ بیٹھے ہیں انہیں تو اللہ تعالیٰ کچھ نہیں کہہ رہا تو پھر ہماری پکڑ کیسے ہوسکتی ہے؟؟ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”میں نے ڈر والوں کے لیے کھلی نشانیاں دی ہیں “۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک نہیں کئی مواقع فراہم کرتا ہے کہ ہم سنبھل جائیں اور گناہوں سے توبہ کرلیں ۔مگر ہر بار ہم یہی کہتے ہیں کہ ہم نے کیاکیا؟؟ ۔غیر شائستہ ،غیر اخلاقی ویڈیوز بنانا ،انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کرنا بھی تو ایک گناہ ہے۔ دوسروں کی بہوبیٹیوں کی ویڈیوز وائرل کرکے مزے لینا بھی اکثریت کی ایک عادت بن چکی ہے ، کیونکہ ان کی سوچ کے مطابق یہ ان کی عزت نہیں ہوتی ،حالانکہ ہمیں اپنی بہو بیٹیو ں کی طرح سب کی عزت کا خیال رکھنا چاہئے ۔سوشل میڈیا پربے شمار خواتین خود اپنے جسم کے ہر حصے کو نمایاں کرتی نظر
آتی ہیں۔ یہ سب کیا ہے ۔۔؟کیا یہ بدکاری وبد فعلی نہیں؟؟
شراب عام ہے پہلے ان سب باتوں کو معیوب سمجھا جاتا تھا اب محفلوں میں شراب کا استعمال پانی کی طرح ہوتا ہے جس جس چیز سے ربّ نے منع فرمایا ،وہ سب ہماری قوم کررہی ہے، کوئی معاشرتی برائیوں اور ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ اکثریت یہ کہتی ہے ہم آواز کیوں اٹھانے لگے، ہم تو گناہ نہیں کررہے ،یہ سب جو کررہے ہیں وہ سزا بھگتیں گے۔لیکن ایسا نہیں ہے ، ہم بھی اس کی سزا بھگتیں گے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے قاتل چار لوگ تھے ،مگر پوری قوم تباہ ہوئی۔ باقی لوگوں کا جرم چپ رہنا تھا۔
قرآن پاک میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”تو نے اسے جھٹلایا پھر اوٹنی کی کوچیں کاٹ دیں تو ان پر اُن کے ربّ نے اس گناہ کے سبب تباہی ڈال کر ان کی بستی کو برابر کردیا ۔اللہ تعالی ٰفرماتا ہے ”©اور تم اس اونٹنی کو برائی کے ساتھ نہ چھونا ورنہ تمہیںبڑے دن کا عذاب پکڑ لے گا تو انہوں نے اس کے پاو¿ں کی رگیں کاٹ دیں پھر صبح کو پچھتاتے رہ گئے تو انہیں عذاب نے آپکڑا بیشک اس (واقعہ)میں بڑی نشانی ہے اور ان میں اکثر لوگ مومن نہ تھے ۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے” بیشک! رات اور دن کی تبدیلی میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ان میں ڈرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں“
ہمارے اعمال نامے روزِ قیامت ہم نے خود پڑھ کر سنانے ہیں یہ موبائل فون کا میسنجر نہیں، جوہمارے ڈیلیٹ کرنے سے ختم ہوجائے گا جو ہم نے کیا ہے وہ آپ نے اللہ کو پڑھ کر سنانا ہے اور ایک ایک تفصیل کے ساتھ بتانا ہے۔ آپ کہاں جاکر اور کس جگہ جاکر گناہ کریں گے؟؟ کہ اللہ تعالیٰ نہ دیکھے وہ تو ہرجگہ ہر شے میں ہر وقت ہر لمحہ موجود ہے ۔
یا توگناہوں کے لیے کوئی ایسی جگہ ڈھونڈئیے ،جہاں رب کی نظر نہ پڑتی ہو، اللہ تعالیٰ کبھی بیماریوں کی صورت میں، کبھی کسی وبا ءکی صورت میں ،کبھی کوئی نصیحت دے کر بندے کو سمجھاتا ہے کہ سدھر جائیے اور گناہوں سے توبہ کر لیجئیے ۔
ایک پوسٹ نظر سے گذری، لکھا تھا کہ” یہ سیلاب عذاب نہیں بلکہ ہماری” آبی مس مینجمنٹ“ ہے، گناہوں کی وجہ سے اگر عذاب ہوتا تو غریب کی جھونپڑیوں کی بجائے بنی گا لا، رائے ونڈ محل،لال حویلی،آسٹریلیا کا جزیرہ اور ڈی ایچ اے میں بھی سیلابی صورتحال ہوتی“۔
حضرت یونس علیہ السلام جب نینیوا بستی سے نکل کر کشتی میں سوار ہوئے تو اس کشتی میں اور بھی لوگ موجود تھے اور کشتی ڈوبنے لگی ۔کسی نے کہا کہ ہم میں سے کوئی شخص گنہگار ہے جس سے اس کا مالک ناراض ہے تو حضرت یونس علیہ السلام نے فرمایا، کہ وہ میں ہوں لوگوں نے کہا کہ ہم کیسے مان لیں کہ آپ ہیں، تین بار قرعہ اندازی کی گئی اور تینوں بار یونس علیہ السلام کا نام آیا تو لوگوں نے انھیں دریا میں ڈال دیا اور مچھلی نے انھیں نگل لیا ۔ہمیں کیا علم ہم میں کون گنہگار ہے اور کون متقی پرہیزگار اور کس کی وجہ سے ہم عذاب بھگت رہے ہیں۔
ہمیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ بنی گالہ اور رائے ونڈ والوں سمیت دیگر لوگوں کو مزید چھوٹ دے رہا ہے یا وہ بخشیں ہوئے ہیں۔ ہمیں کیا علم، ان کی کوئی نیکی ان کو بچا رہی ہے یا اللہ تعالیٰ مزید ان کو مہلت دے رہا ہے کہ کر لیجیے جتنے گناہ کرنے ہیں لوٹ کر تو میرے پاس ہی آنا ہے “۔
قرآن شریف کو ترجمے سے پڑھ کر دیکھیے ،کیا کیا کچھ نہیں بیان کیا گیا کھلی اور واضح نشانیاں دی گئی ہیں۔

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا”للہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو وحی کی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باسیوں پر الٹ دو۔ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار ‘ اس میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کی دیر بھی تیری معصیت میں نہیں گزاری۔ حضور ﷺنے فرمایا کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الٹ دو اس بستی کو پہلے اس پر اور پھر دوسروں پر ‘ اس لیے کہ اس کے چہرے کا رنگ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی میری غیرت کی وجہ سے متغیر نہیں ہوا۔ یعنی اس کے سامنے میرے احکام پامال ہوتے رہے ‘ شریعت کی دھجیاں بکھرتی رہیں اور یہ اپنی ذاتی پرہیزگاری کو سنبھال کر ذکر اذکار ‘ نوافل اور مراقبوں میں مصروف رہا۔ یہ دوسروں سے بڑھ کر مجرم ہے۔
ہمیں اس آزمائش اوراس عذاب سے ڈرنا چاہیے یہ ضروری نہیں کہ عذاب خاص طور پر ہم میں سے ان لوگوں پر ہی آئے گا جو گناہ گار ہیں۔
قرآن اور احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب بھی کوئی قوم مجموعی طور پر منکرات پھیلاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتی ہے تووہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتی ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اجتماعی عذاب کا فیصلہ فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے ”وہی ہے جو تمہیں بجلی دکھاتا ہے اس حال میں کہ تم ڈرتے ہویا امید کرتے ہو اور وہ بھاری بادل پیدا فرماتا ہے۔“(سورہ الرعد : آیت نمبر 12 ،13)
اور رعد اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتا ہے اور اس کے خوف سے فرشتے بھی (تسبیح کرتے ہیں۔) اور وہ کڑک بھیجتا ہے تو اسے جس پر چاہتا ہے ڈال دیتا ہے حالانکہ وہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑرہے ہوتے ہیں اور وہ سخت پکڑنے والا ہے۔
حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ حضورِ پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے ”اے ابنِ آدم! تو نے جب بھی مجھے پکارا اور مجھ سے رجوع کیا، میں نے تیرے گناہوں کی بخشش کر دی اور مجھے اس کی پروا نہیں اور اے ابنِ آدم! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے، تو میں تیری بخشش کر دوں گا اور میری ذات بے نیاز ہے۔ اے ابنِ آدم! ا، اگر تیری مجھ سے ملاقات اس حالت میں ہو کہ تیرے گناہ پوری زمین کو گھیر لیں، لیکن تو نے شرک کا ارتکاب نہ کیا ہو تو میں تیرے گناہوں کو بخش دوں گا۔
یہ عذاب ہمارے ہی بُرے اعمال کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے جسے ہم ”جسٹ فار انجوائے منٹ “کا نام دیتے ہیں ۔یہ جسٹ فار انجوائے منٹ ہی ہے جو عذابِ الٰہی کو دعوت دے رہا ہے۔معاشرے میں دھیرے دھیرے بدکاری بے حیائی پھیلتی جارہی ہے ہم لوگ نبی کریم کی امت میں پیدا ہوکر سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ بھی گناہ کرلیں ، تو بخشیں جائیں گے۔کون ہے اللہ کے سوا جو ہمیں عذاب سے بچالے گا پاکستان کے مختلف حصوں میں آنے والا سیلاب اور اس کی تباہ کاریاںلمحہ فکریہ ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ حکمران اور عوام دونوں ہی ہوش کے ناخن لیں ۔ملک میں معاشرتی برائیوں کی روک تھا م کےلئے قانون سازی کی جائے ۔اور ایک اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل میں حکمرانوں سمیت ہر شخص اپنا اپنا کردار ادا کرے ۔۔سیلاب سے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کردیا ہے ۔متاثرہ علاقوں میں لوگ کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں ۔مشکل کی اس گھڑی میں مخیر حضرات کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہئے ۔کیونکہ متاثرین ایک بڑی آزمائش سے گذر رہے ہیں ۔انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے ۔حکومت اور عساکر پاکستان اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر دھیان دیں اور عوام و خواص اپنے پریشان لوگوں
کی پریشانیاں کم کرنے کےلئے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اپنا حق کریں ۔اپنے ربّ سے گناہوں کی معافی مانگیں ،بیشک ! وہ حکمت والااور اپنے بندوںکو معاف کرنے والا ہے ۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو بخشے اور امت مسلمہ پر رحم فرمائے آمین۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں