موجودہ سیاسی حالات

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو الیکشن کروانے کا اعلان کیا ہے۔ موجود حالات میں ایک سیاسی جماعت کوField Penel Playing دی جارہی ہے۔ جس پر پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیں غیر یقینی کا شکار ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) وہ جماعت ہے جس کو اس وقت سسٹم کی بہت زیادہ Support ہے لیکن شہباز حکومت کی کارکردگی ایسی رہی ہے کہ اس وقت پبلک میں بہت غصہ ہے جوں جوں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اپنی ٹکٹ جمع کرواکر حلقے میں پبلک کے پاس جا رہے ہیں تو ان کو پبلک کا غصہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکن تو متحرک ہیں لیکن عوام مہنگای سے تنگ ہیں۔ جوں جوں الیکشن کمپین کا وقت قریب آتا جائے گا توں توں مسلم لیگ (ن) کا کارکن پبلک کے سامنے ہارتا جائے گا۔ ایک سیاسی مایوسی مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے اندر پھیلے گی۔ جس کی وجہ عوام کا غصہ ہے جو مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو خاموش کروا دے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی جدوجہد مختلف حلقوں میں کوشش کرنے کے باوجود بھی عوامی ناکامی میں تبدیل ہو جائے گی۔ 2024کا الیکشن مہنگائی پر ہونے والا ہے۔ جس میں پی ڈی ایم (PDM) کی جماعتوں پر شدید تنقید ہو گی۔ کارنر میٹنگ، جلسے، جلوس مسلم لیگ (ن) کے عوامی طور پر ناکام ہونے شروع ہو جائےں گے۔ موجود صورت حال میں مسلم لیگ (ن) کے پاس ایسا کوئی بیانہ نہیں ہے جس سے عام آدمی مطمئن ہو سکے۔ عام آدمی کی زندگی اس وقت ایسی ہے کہ حکمران طبق سوچ نہیں سکتا۔ ہر روز پاکستان کے کڑوروں لوگ بے بسی، بے روزگاری، افلاس و بھوک، بغیر دوائی ، بغیر خوراک، بغیر سواری کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں جب مسلم لیگ (ن) کے امیدواران و کارکن الیکشن کمپین چلانے کی کوشش کریں گے تو ان کو عوام کے غصے کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ موجود اسٹبلشمنٹ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو تعاون کر رہی ہے جو کوشش کر رہی ہے ان کو اس وقت تبدیلی کرنی پڑے گی۔ان کے تھنک ٹینک بہت اچھی طرح جان جائیں گے کہ عوام میں مسلم لیگ (ن) کو کوئی پذیرائی نہیں ہے۔ صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) کا ناکام پراپیگنڈا تھا۔ موجود حالات میں عام آدمی بہت سمجھدار ہو گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن)کے امیدواروں کے ساتھ الیکشن میں وہ ہوگاجووہ سوچ بھی نہیں سکتے۔اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے کہ موجودہ حالات میں ایک سیاسی جماعت کے علاوہ باقی سیاسی جماعتوں کو بھی لیول پلئنگ فیلڈ دی جائے تاکہ ملک میں استحکام کی بات ہوسکے ۔آئی پی پی کا کردار بہت اہمیت کا حامل پے۔اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے کارکن بھی اپنی جماعت میں شامل کرلے۔یہ کارکن ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کو بنایااورعوامی سپورٹ دلوائی۔ان حالات میں جب پی ٹی آئی کے لیڈر عمران خان جیل میں ہیںاورپاکستان کی مقامی لیڈرشپ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر آئی پی پی میں جارہی ہے ۔پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ بہت کمزور ہوتا جارہا ہے۔اگر آئی پی پی کی لیڈر شپ اس تنظیمی ڈھانچہ کو اپنی طرف لے آئی تو یہ ایک ایسی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئے گی جو آنے والے وقت میں پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
اس وقت آئی پی پی کو اس سیاسی ڈھانچہ کی اشد ضرورت ہے۔اگر وہ سیاسی ڈھانچہ بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ پنجاب میں اپنی حکومت بھی بناسکتی ہے۔آئی پی پی کو چاہئے کہ وہ پی پی پی کے ساتھ چلے۔اور پی پی پی کو چاہئے کے کہ وہ آئی پی پی کے ساتھ ہاتھ ملالے۔اس وقت پنجاب میں دو طاقتیں ہیں۔آئی پی پی اور مسلم لیگ ن لیکن مسلم لیگ ن صرف میڈیا کی حدتک محدود ہے۔مہنگائی کی وجہ سے اس کی عوامی پذیرائی ختم ہوچکی ہے۔ صرف کارکن اسے کامیاب کرسکتے ہیں۔جماعت اسلامی ،پی پی پی اور آئی پی پی اگر ایک ہوجاتی ہیں تو مسلم لیگ ن صرف اپوزیشن کی پارٹی بن جائے گی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں