بلاول بھٹوزرداری کا المیہ

تحریر:رفیع صحرائی
آج کل سیاسی جلسوں کے ذریعے سے بلاول بھٹو کی عوامی رابطہ مہم زور شور سے جاری ہے۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ اکیلے ہی اس میدان کے شہ سوار بنے ہوئے ہیں۔ کبھی جلسہ اور کبھی ورکرز کنونشن کے نام پر انہوں نے سیاسی ماحول بنایا اور گرمایا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ان کے لئے 9 مئی کا دن اتنا طویل ہو چکا ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ پی ٹی آئی ایک ایسا درخت بن چکی ہے جس کے پتے بہت تیزی سے جھڑے ہیں۔ یہ ٹنڈ منڈ درخت اپنے ورکرز کو سخت دھوپ سے بچانے کے قابل ہے اور نہ ہی تیز بارش یا آندھی میں ان کے لئے محفوظ پناہ گاہ رہا ہے۔ خزائں نے اس تناور درخت کا یہ حال کر دیا ہے کہ اس کے پتے اور پھل ہی نہیں جھڑے بلکہ بہت سی شاخیں بھی ٹوٹ کر علیحدہ ہو چکی ہیں۔ عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں ٹی ایل پی کو خبردار کرتے ہوئے وارننگ دی تھی کہ ریاست سے نہ ٹکرانا کیونکہ ریاست کی طاقت کا مقابلہ نہ کر پائے گے۔ وقت آیا تو عمران خان خود یہی غلطی کر بیٹھے۔ نتیجہ منطقی نکلا۔ پارٹی تباہ ہو گئی۔ ان کی پارٹی کی عمارت جن اینٹوں اور روڑوں کو جوڑ کر بنائی گئی تھی وہ اینٹ روڑے واپس اپنے اپنے مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ نویں نکور عمارت دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈر بن گئی ہے۔ عمران خان جیل میں بیٹھ کر یقیناً اپنی غلطیوں پر غور کرتے ہوں گے۔ ادھر بشریٰ بی بی کے سابق خاوند خاور مانیکا نے شاہ زیب خان زادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان پر سنگین اور سنجیدہ الزامات لگا کر ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ نواز شریف جب قابلِ قبول نہیں رہے تھے تو پانامہ میں سے اقامہ نکل آیا تھا۔ عمران خان اس سے کہیں زیادہ بڑے الزامات کی زد میں ہیں۔ اگر نواز شریف کی نااہلی کے منصوبے میں عمران خان شامل نہ ہوتے تو آج سیاسی طور پر اس طرح یکہ و تنہا نہ رہ جاتے۔ کوئی ایک سیاسی پارٹی بھی ان کی حمایت میں نہیں بول رہی۔ وہ مقبول ضرور ہیں مگر قبولیت کے سنگھاسن سے اتار دیئے گئے ہیں۔ اس وقت خود ان کے علاوہ پارٹی اور پارٹی ورکرز بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ کوئی قابلِ ذکر سیاستدان یا الیکٹیبل ان کے ساتھ نہیں رہا۔ البتہ وکلا ءکی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ ضرور موجود ہے اور گمان ہے کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار زیادہ تر وکلا ءہی ہوں گے۔
جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو وہ شور شرابہ اور ہنگامہ کئے بغیر بڑی سنجیدگی سے آئندہ انتخابی یُدھ کے لئے صف بندی کر رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے بلوچستان کے دورے میں پیپلز پارٹی کو رگید کر رکھ دیا ہے۔ بلوچستان سے جن سیاست دانوں نے جناب آصف زرداری کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کا گرین سگنل دیا تھا خود انہیں اس اقدام کا گرین سگنل نہیں مل سکا۔ ان کی سیاسی پٹڑی کا کانٹا بدل دیا گیا جس کے نتیجے میں ان کی ٹرین مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے جا لگی۔ بلاول بھٹو اسی لئے اپنے جلسوں میں چیخ چیخ کر لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ اس بات کے شاکی بھی ہیں کہ نواز شریف کو ابھی سے وزیرِ اعظم کا پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ بے شک بلاول اپنی تقریروں میں عمران خان کو بھی نشانے پر رکھتے ہیں مگر ان کی توپوں کا اصل رخ ن لیگ کی طرف ہی ہوتا ہے۔ کبھی وہ نواز شریف کو پچھتر سالہ بابا کہہ کر مسترد کرتے ہیں تو کبھی شہباز شریف کی سولہ ماہ کی حکومت کی کارکردگی پر انہیں مہنگائی لیگ کا نام دیتے ہیں۔ گو وہ خود بھی اس حکومت کا حصہ تھے اور اس قدر غافل وزیر تھے کہ وزارت کے نشے میں دُھت ہو کر انہیں دورانِ اقتدار اس مہنگائی اور عوام کی مشکلات کا بالکل پتا نہ چل سکا تھا۔ بلاول بھٹو کو اس بات پر بھی غصہ ہے کہ ن لیگ سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ انتخابی اتحاد کے بعد جی ڈی اے اور پیپلز پارٹی مخالف دوسری سیاسی قوتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر پیپلز پارٹی کے لئے مشکلات کھڑی کر رہی ہے۔ وہ ن لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قربت کے طعنے بھی دے رہے ہیں اور اپنے آپ کو آئندہ الیکشن کے نتیجے میں وزیرِ اعظم بنتا بھی دیکھ رہے ہیں۔
بلاول بھٹو جلسوں میں پورا سچ نہیں بول رہے۔ ادھورا سچ جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو جان بوجھ کر نہیں بتا رہے کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد مسلم لیگ ن سے زیادہ ان کی اور ان کے بابا کی خواہش اور ضرورت تھی۔ نواز شریف تو مان ہی نہیں رہے تھے۔ پھر جناب آصف زرداری نے نومبر میں آرمی چیف کی تقرری اور 2028 تک عمران خان کو بطور وزیر اعظم حکومت کرنے کی پلاننگ کے بارے میں انہیں بتا کر یہ کہا کہ 2028 تک سیاست کے یہ دونوں بابے (جناب زرداری اور نواز شریف) منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت کی عملی تفسیر بن چکے ہوں گے۔ ان کی اولاد عمران خان کا مقابلہ نہ کر سکے گی لہٰذا انی اگلی نسل کی لانچنگ کے لئے عمران خان کو ہٹانا ضروری ہے تو نواز شریف کو قائل ہونا پڑا۔ نواز شریف اپنے بھائی میاں شہبازشریف کو وزیرِ اعظم بنانے کے حق میں نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے یہ منصب پیپلز پارٹی قبول کرے مگر آصف زرداری اور بلاول جانتے تھے کہ اس موقع پر وزارتِ عظمیٰ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے۔ ن لیگ اورشہباز شریف قربانی کا بکرا بن گئے جبکہ پیپلز پارٹی نے اپنے جثے سے بھی زیادہ حصہ وصول کر لیا۔ انہوں نے وزارتیں اور اعلیٰ عہدے بھی حاصل کئے اور حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعداب معصومیت کا ڈراما بھی رچا رہے ہیں۔ اگر اس وقت پیپلز پارٹی وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ قبول کر لیتی تو آج بلاول ممکنہ طور پر وزیرِ اعظم کے عہدے کے لئے مضبوط امیدوار ہوتے۔ مگر پارٹی کی غیرمقبولیت کے خوف سے مشکل وقت میں پتلی گلی سے نکلنے کے بعد بلاول اب سہولیات مانگ رہے ہیں تو وہ اپنے آپ کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ عوام ان کے پینتروں کو دیکھ بھی رہے ہیں اور سمجھ بھی رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر وہ نوازشریف کو بابا کہہ کرسیاست سے آﺅٹ ہونے کا جب مشورہ دیتے ہوئے نوجوانوں کو موقع دینے کی بات کرتے ہیں تو انہیں اپنے بابا آصف زرداری نظر نہیں آتے جو پارٹی کے کو چیئرمین اور فیصلہ ساز طاقت ہیں۔ انہیں اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے اپنے بابا سے پارٹی چیئرمین شپ سے استعفیٰ لینا چاہئے۔
بلاول بھٹو اور جناب آصف زرداری کو امید تھی کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے الیکٹیبلز ان کی چھتری کے نیچے آئیں گے۔ وہ یہ سوچنے میں حق بجانب بھی تھے کیونکہ مسلم لیگ ن کے ہاں ”ہائس فل“ کا بورڈ لگا ہوا تھا مگر چاک (نوکر) بنے بغیر رانجھے کو چوری نہیں ملا کرتی۔ پیپلز پارٹی کے راستے میں استحکامِ پاکستان پارٹی کی دیوار کھڑی ہو گئی ہے۔ بلا شبہ آصف زرداری سیاست کی شطرنج کے ایک بڑے شاطر ہیں لیکن دوسری طرف بھی اناڑی نہیں ہیں۔ جنابِ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زردای نے 2024 میں بلاول کے وزیرِ اعظم بننے کا جو خواب دیکھا تھا وہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں