خاکروب

ہمارے ہاں کلچر بن چکا ہے کہ اپنے سے چھوٹے ملازم کو خوب رگڑا لگایا جائے اور سب سے چھوٹے درجے کا ملازم خاکروب ہے جو ہمارے لیے صفائی ،ستھرائی کا انتظام کرتا ہے بندگٹروں کے اندر اتر کر انہیں کھولتا ہے اور گندگی کو باہربھی نکالتا ہے بہت سے خاکروب انہی گٹروں کے اندر دم گھٹنے سے موت کے منہ بھی چلے گئے آج تک کسی بھی سیاسی اور فوجی حکومت نے انکے بارے میں نہیں سوچا سوائے نگرا ن وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقرکے جنہوںسندھ کی حد تک تو ایک تاریخی فیصلہ دیدیا ہے کہ آج کے بعد کسی خاکروب کو مین ہول کے اندر نہ بھیجیں بلکہ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور دیگر متعلقہ ادارے ایسی مشینری لائیں جو بلاک مین ہول کو کھولے مین ہول کے اندر خاکروب کو بھیجنا غیر اخلاقی اور انسان دشمن رویہ ہے، ہر انسان قابل احترام، عزت اور محبت کے لائق ہے اس لیے تمام میونسپل ادارے یہ غیر انسانی کام بند کریں، کسی غریب کی زندگی سے کھیلنا بند کریں۔ہمارے یہ خاکروب بارشوں میں بھی سڑکوں پر نظر آتے ہیں اور عام حالات میں بھی یہی لوگ ہمارے اٹھنے سے پہلے گلیاں اور سڑکیں صاف کردیتے یہاں تک کہ ہمارے گھروں سے بھی آکر کوڑا وغیرہ لے جاتے ہیں اگر انکی تنخواہ کی طرف دیکھیں تو جو پیسے انکو محکمہ دیتا ہے اس میں یہ لوگ اپنے گھر کا خرچہ بڑی مشکل سے پورا کرتے ہیں بلکہ بعض مقامات پر ان خاکروبوں سے بھی بھتہ وصول کیا جاتا ہے ملک کے دوسرے علاقوں کا موازنہ لاہور کے شالا مار ٹاﺅن سے کرلیں تو آپ کو اندازہ ہو جائیگا کہ ہمارے افسران خاکروبوں سے کتنا بھتہ وصول کرتے ہیں اور اسکے بعد جو پیسے انہیں ملتے ہیں ان پیسوں سے ان خاکروبوں کے بچے نہ پڑھ سکتے ہیں اور پھر نہ ہی کوئی ڈھنگ کی نوکری کرنے کے قابل ہوتے ہیں یہ لوگ اگر بیمار بھی ہوجائیں تو حکومت کی طرف سے انہیں کوئی مراعات نہیں ملتی یہ لوگ معاشرے کو صاف رکھتے رکھتے موت کے منہ بھی چلے جاتے ہیں عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والا ایک سینیٹری سپروائزر عرفان مسیح بند گٹر کو کھولنے کے لیے مین ہول کے اندر اترا تو زہریلی گیسوں سے بے ہوش ہوگیااسے نکال کر عمرکوٹ سول ہسپتال پہنچایا گیا تو وہاں کے ڈاکٹروں نے اس کے کیچڑ سے بھرے جسم کو چھونے سے انکار کر دیا اور پھر عرفان مسیح موت کے منہ میں چلا گیا اسی طرح کے واقعات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ملک کے ہر بڑے شہر میں متعدد خاکروب موت کا نشانہ بن چکے ہیں ہمارے سماجی اور معاشی نظام میں صفائی کے کارکنان بدترین حالات میں اپنی زندگی گذار نے پر مجبور ہیں انہیں رسمی مزدوری کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے اور تنخواہ کا پیمانہ بہت ہی کم ہے وہ بھی اس کام کے لیے جس میں صحت کے سنگین خدشات لاحق ہیںہمارے ہاںصفائی کا کام انسانی وقار کی سنگین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے مرد خاکروب تو اس مشکل ترین کام میں جس طرح گذارا کرتے ہیں وہ لمحہ فکریہ ہے لیکن جو خواتین اس کام سے منسلک ہیں وہ اپنی زندگی کی گاڑی کو جس طرح چلاتی ہیں وہ ناقابل بیان ہے اور اوپر سے ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ہمارے افسران انکی تنخواہوں میں سے بھی پیسے کاٹ لیتے ہیں اور پھرجتنی ان لوگوں کو تنخواہ ملتی ہے اس میں سے بل ادا کرنے بھی ان کے لیے مشکل ہو جاتے ہیں کوئی خاکروب ایسا نہیں ہوگا جو سرکاری نوکری کے علاوہ کہیں نہ کہیں دوسری نوکری بھی کررہا ہوتا ہے ایک خاکروب کا کہنا ہے کہ میرے چار بچے ہیں میری ماں بیوہ ہے اور اتنی کم آمدن سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے مسائل کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں اور اگر کسی خوشی یا غمی کے لیے کسی سے قرض لے لیں تو وہ پھر واپس کرنا ناممکن بن جاتا ہے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہیں ہے جبکہ بعض اوقات لوگوں کے تکلیف دہ رویے بھی ہمیں برداشت کرنا پڑتے ہیں حالانکہ ہمیں سینیٹری ورکرز کو گٹروں کو دستی صاف کرنے کے لیے جان اور اعضاءکو بھی خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے اور اسے رسمی مزدوری نہیں سمجھا جاتا اس لیے کام کی اس لائن میں خصوصی آلات اور حفاظتی ضوابط کا کوئی تصور نہیں ہے محکمہ کے افسران ان سینٹری ورکرز کو پوراسامان بھی نہیں دیتے ہیں بلکہ کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں سینٹری ورکر اپنا جھاڑو اور بانس استعمال کرتے ہیں کہ کہیں انہیں نوکری سے نکال نہ دیا جائے صبح سے شام تک گلی محلوں ،بازاروں اور سڑکوں پر جتنے خاکروب ہیں انہیں ایک زندگی کی کوئی سہولت میسر نہیں لاہور میں ایل ڈیلیو ایم سی خاکروبوں کی نگرانی کرتا ہے اس محکمہ میں ایک شعبہ ہے ای آر کا جہاں سوائے کرپشن اور چور بازاری کے کچھ نہیں ہوتا اس شعبہ کے افسران ان غریب خاکروبوں سے بھی پیسے لیتے ہیں بلکہ اسی محکمہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بہت سے کاغذی خاکروب بھرتی کررکھے ہیں جنکی تنخواہیں وہ ہضم کرجاتے ہیں لاہور میں اس وقت تقریبا 12ہزار سے زائد خاکروب کام کررہے ہیں اگر ان سب کو اکٹھا کر کے انکی حالت دیکھی جائے تو یقین نہیں آتا کہ لاہور میں رہنے والے یہ لوگ بھی انسان ہیں جو زندگی کی بنیادی ضروریات کو ترس گئے ہیں جن کے پاس علاج کروانے کے پیسے نہیں جو اپنے لیے نیا سوٹ نہیں خرید سکتے ان کے پاﺅں میں ڈھنگ کی جوتی نہیں ہوتی ان اور تو اور وہ اپنے بچوں کو کھیلنے کے لیے کھلونا تک نہیں لیکر دے سکتے اور ہماری حکومتوں نے بھی انکے حقوق نہیں دیے ان مشکل ترین حالات میں زندگی گذارنے والے یہ لوگ ہمارے لیے نصف ایمان کا بندوبست کرتے ہیں وہ تو اللہ بھلا کرے سندھ کے نگران وزیر اعلی کا جنہوں نے انکی ایک ایسی مشکل آسان کردی جس میں وہ جان کی بازی بھی لگادیتے تھے اسی طرح باقی صوبوں کو بھی چاہیے کہ انکے گٹروں میں اترنے پر پابندی لگائی جائے ایسی مشینری کا انتظام کیا جائے جو بند گٹروں کو کھول سکے اور ایسے عناصر کا بھی قلع قمع کیا جائے جو انکی محنت کشوں کی تنخواہوں میں سے پیسے کاٹ لیتے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں