لنڈابراستہ لنڈن

لنڈا بھلے پوری دنیا سے آئے مگر نام لندن کا ہی بدنام ہوتا ہے۔کیونکہ ہم سب لنڈے سے خریدا ہوا ہر مال” ماما“ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں،کسی سے بھی پوچھو اتنی اچھی جیکٹ کہاں سے لی تو جھٹ جواب آئے گا کہ ماموں نے لندن سے بھیجی ہے۔ میرا ایک معصومانہ سا سوال ہے کہ یار یہ سارے مامے لندن میں کرتے کیا ہیں؟ یقین جانئے اتنے لنڈے میں کپڑے نہیں ملتے جتنے کہ لندن میں مامے۔مجھے تو لگتا ہے کہ لنڈے سے مال خرید کر کے سب ایک دوسرے کو ماموں بناتے ہیں۔ہم پاکستانیوں کے لئے اتنا مشکل لنڈے کی ”گنڈ“ میں سے ”پیس“تلاش کرنا نہیں ہوتا جتنا اس بات کا لوگوں کو یقین دلانا کہ یہ لنڈے کا نہیں برانڈ کا سوٹ ہے۔کچھ لوگ تو پھر بھی یقین نہیں کرتے،کسی کوپر کشش کپڑے پہنے دیکھ کر معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھیں گے جیسے کہنا چاہ رہے ہوں کہ ”ہوہ اسی برانڈ کا مال کل میں نے خود لنڈے کی دکان میں دیکھا تھا بالکل ایسا ہی ایک پیس۔بندہ پوچھے کہ تُو وہاں ” خیہہ ‘ ‘کھانے گیا تھا۔
خلیل الرحمان قمر کی ایک بات یاد آگئی کہ ایک بار میں نے لنڈے سے ایک کوٹ خرید کر کے پہنا،باوجود بتانے کے کسی نے نہیں مانا،ایک بار ایک اچھے برانڈ کا کوٹ خرید کر کے پہنا،بتانے پر لوگوں نے پھر بھی یقین نہیں کیا۔ہم پاکستانیوں میں جس چیز کا سب سے زیادہ فقدان ہے وہ ایک دوسرے پر یقین ہے۔سردی میں ہم غریبوں کو ماں کی گود اور لنڈے کا کوٹ ہی گرماتا ہے۔غریب آدمی مہنگائی سے مرتاہے یا ٹھنڈ سے۔وگرنہ ،ہم تو قسمت کی مار کو بھی لفٹ نہیں کرواتے۔”حق اور چَوَل مارنے“میں میری قوم آج بھی پہلے نمبر ہے۔
لنڈا ہے کیا اور اس کی حقیقت کیا ہے؟کیا آپ باخبر ہیں اگر نہیں تو جان لیجئے کہ ایک برطانوی خاتون جس کا نام لنڈاlinda تھا،اپنے علاقے میں اپنی رحمدلی اور غربا و مساکین کی خدمت کے سلسلہ میں مقبول عا م تھی۔اگرچہ وہ جذبہ خدمت سے سرشار تھی تاہم وسائل کی قلت آڑھے آ جاتی ۔اس نے ایک پلان بنایا، چند دوستوں کی مدد سے عطیات جمع کئے،ان سے غربا و مساکین کی ضروریات کے کپڑے خرید کر کے ایک اسٹال لگایا۔اور یہ طے کیا کہ جس کو بھی ضرورت ہوگی وہ اپنی ضرورت کے مطابق وہاں سے کپڑے لے جا سکتا ہے۔یہ اسٹال بڑھتے بڑھتے مارکیٹ کی صورت اختیار کر گیا۔ اور لِنڈا linda کا نام بگڑتے بگڑتے موجودہ لفظ لَنڈا بن گیا(اسے کہتے ہیں ایک زِیر کو زَبرکردیا)۔اس بازار کی بنیاد ایک خاتون نے رکھی تھی شائد اسی لئے آج بھی لنڈے بازار میں اتنی جرسیاں نہیں ملتی جتنی خواتین۔کیونکہ جو چوائس خواتین کی ہوتی ہے مرد تو اس کے آس پاس بھی نہیں پھڑکتے،اگر پھٹکیں بھی تو جرسیوں کے گردا گرد نہیں بلکہ خواتین کے ارد گردبشرطیکہ اپنی نہ ہو۔ایسے منچلوں کی کہاوت ہے کہ جو جرسی اور ۔۔۔۔لنڈے میں ملتی ہے وہ کہیں اور کہاں۔ویسے مردوں کا کیا ہے وہ تو لنڈے کی جرسی پہن کر بھی انگریزوں جیسے مزے لے لیتے ہیں جیسے کہ
ایک شخص ایک بار اپنی ایک سمسیا لے کر اپنے علاقے کے سیانے کے پاس گیا اور بتایا کہ اسے روزانہ خواب میں چہار اطراف ”گوریاں ہی گوریاں “دکھائی دیتی ہیں،انہوںنے میری رات کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔تو پیرو مرشد فرمانے لگے ۔
”بیٹا لنڈے کی جرسی اتار کر سویا کرو“
ویسے گورے اتنے عظیم لوگ ہیں کہ اپنے زائد اور قیمتی ملبوسات بھی لنڈے میں دے آتے ہیں جنہیں ہم فخر سے پہن کر کہتے ہیں کہ لندن سے ماموں نے بھیجے ہیں۔حالانکہ ہم تو اس قوم کے فرزند ہیں جو بچے کے نیپکن کا فیڈر کور،جراب کے دستانے، ایکسپائرٹوتھ برش کو توڑکر ”نالہ پونی“اور پرانی بنیان جوتے صاف کرنے کے لئے رکھ لیتے ہیں۔ اور تو اور بچے کے کپڑے چھوٹے ہو جائیں تو اسی سالہ دادی اماں اپنی عینک کے فریم سے موٹی موٹی آنکھیں نکالے بہو کو ڈانٹتے ہوئے کہتی ہے۔
”رکھ لو اگلے بچے دے کم آ جان گے“یعنی پنڈ وسیا نئیں اچکے پہلاں ای آ گئے۔
اچھا میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کوئی گورا اگر جینز کی پینٹ کے ساتھ کوٹ یا چیسٹر پہن کر آجائے تو یار لوگ اس کے کیبن میں جا کر TC کرتے ہیں کہ waoo looking fab اور اگر کوئی میرے جیسا برانڈ کوٹ یا چیسٹر پہن بھی لے تو پہلا سوال
”لنڈے دا ہونااے“
آپ مشکل سے یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں تو پاس ہی کھڑا رشتہ دار منہ سے یوں آگ نکالے گا
”وڈے بھرا ں دی ہونی وا،آپ تے ازلاں توں ویہلا نکما“
یار بندہ پچھے وڈے یا چھوٹے بھرا ں دی ہووے ،توں ماما لگدا۔
اسی لئے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہم پاکستانیوں کو ماسوا کیڑتے نکالنے کے کوئی کام نہیں آتا۔کبھی کبھار تو ایسی جگہوں سے بھی کیڑے نکال دیتے ہیں کہ خود کیڑے پریشان ہوتے ہیں کہ ”ہمیں جس جگہ سے اس پاکستانی نے نکال دیا ہے وہاں تو ہماری سوچ بھی نہیں جا سکتی“۔یہی لنڈا اب بہت سے ممالک میں غریب آدمی کے لئے ”صنعت لازم“ بن چکا ہے۔اگر میں عرب ممالک کی بات کروں تو وہاں لنڈے کا جدید نام ”سوق حراج“پڑ گیا ہے۔ سوق حراج میں سوئی سے لے کربحری جہاز کے پارٹس تک سستے داموں دستیاب ہوتے ہیں۔ہم واشنگ مشین تو سوق حراج سے لاتے ہیں مگر اس میں کپڑے لنڈے کے نہیں دھوتے۔جیسے ہم لیڈر تو لندن سے منگواتے ہیں مگر نکلتے وہ لنڈے کے ہیں ۔کچھ لوگ ٹھنڈ سے ٹھٹھر جائیں گے مگر لنڈا نہیں پہنیں گے۔واہ رے پاکستانیو!ٹھنڈ نال مر جانا، لنڈا نا پانا۔بحثیت قوم ہمارا المیہ ہے کہ ہم لنڈے کی جرسی کو بھی سو بار الٹا سیدھا کر کے دیکھتے ہیں کہ کہیں ”ٹک“تو نہیں لگا ہوا،لیکن لیڈر دیکھتے ہوئے کبھی نہیں سوچتے کہ کہیں لنڈے کا تو نہیں۔خدارا پاکستانیو!لیڈر بھلے لنڈے سے منتخب کرلینا مگر اسے لندن نہ جانے دینا،کیونکہ جو وہاں جاتا ہے واپس نہیں آتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں