تاریخ کے ادوارسمیری قوم

تحریر:عطیہ ربانی، بیلجیئم
جب اللہ تعالٰی نے دنیا میں انسان کو بنانے کا سوچا تو سب سے پہلے قلم بنایا اور اسے حکم دیا کہ تمام بنی نوع انسان کی تقدیر لکھ دے۔ اور پھر اسے لوح محفوظ میں قلمبند کر دیا گیا۔
روئے زمین پر پہلے پہل کہا جاتا رہا کہ انسان باقاعدہ لکھنا 3300 برس پہلے شروع کیا۔ پرانی زبانوں میں سب سے پرانی لکھی جانے والی زبانیں، فنیشئین، ہیبرو فنیشئین، مصری، یہاں تک کہ چینی زبان و تہذیب بھی سب سے پرانی مانی جاتی ہے۔ مصری تہذیب گو کہ چین سے پرانی ہے ناچیز کی نظر میں مگر اب تک قائم رہنے والی پرانی تہذیبوں میں چینی زبان س تہذیب کہلائے گی کیونکہ مصری تہذیب مکمل ختم ہو کر دوبارہ سے ایک نئے مذہب نئی زبان کے ساتھ شروع ہوئی۔
خیر یہاں ذکر پرانی زبان کا ہے تو سمیری، اکاڈین اور مصری قدیم ترین زبانیں کہلاتی ہیں۔
سمیریا یا سومیر۔۔۔ موجودہ عراق اور کردستان کے کچھ علاقوں پر مشتمل علاقہ، جنوبی میزوپوٹامیا کا علاقہ کہلاتا ہے۔ یعنی دو دریاؤں کی درمیان سرزمین، بیت النہرین وغیرہ۔یہاں ایک شہر نہیں بلکہ سومیری یہاں آباد ہوئے ان کے بعد آنے والے اکیڈئین، اسیریین اور بابل والے کہلائے۔

مختلف مذاہب کی کتب میں اینوک نام کے پیغمبر گزرے ہیں۔ جن کا تعلق سمیریا سے تھا۔ حضرت آدم علیہ سلام کے بعد شیث علیہ سلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور حضرت نوح علیہ السلام کے پر دادا بھی تھے۔ آپ کا دور حضرت آدم علیہ سلام کے 500 برس بعد کا ہے۔
قرآن کریم میں سورہ مریم کی آیت56، 57 میں آپ کو سچا نبی کہا گیا۔ تقریبا دو سورتوں میں آپ کا ذکر ملتا ہے۔
گو آپ کا نام حنوک، اور بعض جگہ اینوک ہے مگر ادریس قرآنی نام ہے۔ وجہ کہ آپ وہ پہلے نبی تھے جنہوں نے درس و تدریس کا کام شروع کیا۔ آپ ممفس یا عراق کے شہر بابل میں پیدا ہوئے اور آپ پر تقریبا 30 صحیفے نازل ہوئے۔ آپ و علم نجوم اور حساب بطور معجزہ عطا کیے گئے۔ کپڑے سینا بھی حضرت ادریس نے ہی شروع کیا اور سکھایا۔
پیشے کے لحاظ سے نبوت کے ساتھ ساتھ ماہر ریاضیات اور ماہر فلکیات بھی تھے/ہیں۔
(ہیں اور تھے سے مراد ان کی موت کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں اور مختلف تاریخ ہے۔ بعض کے نزدیک رحلت فرما چکے، بعض کے نزدیک جنت میں ہیں مگر رحلت نہیں فرمائی۔ اور بہت سی باتیں، کسی اور موضوع پر لکھیں گے)۔
اب یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ ماہر ریاضیات اور فلکیات۔ اور نام نہیں پہچان ادریس۔ پہلا قلم آپ نے ایجاد کیا۔ لکھنا سیکھا اور پھر اپنی قوم کو سکھایا۔ باقاعدہ کتب ترتیب دے کر درس و تدریس کا کام کیا۔
یہاں یہ بات ذہن میں رکھیے کہ یہ ذکر ہے سومیری قوم کا جن کا ریاضیات اور فلکیات کا علم بچے بچے مہارت کی حد تک آتا تھا۔
بعض ماہرین اور تاریخ دان کے مطابق پرانی زبانوں میں قدیم مصری زبان ہے جو 3300 سے 4700 قبل مسیح لکھی گئی۔
مگر آج کی تاریخ میں سومیری تختیاں ملتی ہیں جو 5400 سال پرانی ہیں۔ تو اس بات سے کیا ثابت ہوتا ہے۔
جنوبی میزوپوٹامیا میں بسنے والی قوم ‘سومیری’ جو 4100-1750 BCE (قبل مسیح) اس دنیا میں علم کی نئی راہیں تلاش کر رہے تھے۔ یہ غیر سامی لوگ تھے جو صرف یہود نہیں بلکہ عرب بھی کہلاتے ہیں۔
اس علاقے کو “تہذیب یافتہ بادشاہوں کی سرزمین” کہا گیا۔ جبکہ خود سمیری سیدھے الفاظ میں ” کالے سر والوں کی زمین” کہتے۔
The land of black-headed people
اس قوم کو بہت سخت ایجادات کے اعزازات حاصل ہیں جیسے کے وقت جانچنے کا طریقہ سب ذیادہ قابل ذکر ہے۔ 12 گھنٹے، 60 منٹ، 60 سیکنڈ کا تصور یہیں سے دنیا کو ملا۔
تاریخ کا پہلا سکول ایک تعلیمی ادارہ، جہاں آنے والے بڑے سیلاب کی پیش گوئی پہلی بار کی گئی۔ جیسے کہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ حضرت ادریس نبی تھے اور وحی کے ذریعے انہیں علم دیا جاتا۔
گو دنیا کو تو انیسویں صدی کے اوائل میں ماہر ارضیات کی کھدائی کے بعد سومیری قوم کی تختیاں ملنا شروع ہوئیں۔ اور ان پر درج ستاروں کی معلومات و تفاصیل آج کے ماہرین کے لیے نہایت حیران کن ہو سکتی ہیں۔
مگر قرآن کریم پڑھنے والے تو یہ بات جانتے ہی ہیں کہ اللہ سبحان تعالٰی نے فرمایا کہ تم سے پہلے تباہ کی جانے والی قومیں تم سے کہیں ترقی یافتہ تھیں۔
یہ بات تو آج تک معلوم نہیں ہو سکی کہ سومیری درحقیقت کہاں سے آئے تھے۔ مگر انہوں کے علم ریاضیات و فلکیات میں کیا کچھ ایجادات کیں وہ آج بھی حیران کن ہیں۔
وادی دجلہ و فرات کے درمیان بسنے والی قوم کاشتکاری کے بھی بہترین طریقے جانتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مغربی ایشیا کے اولین باشندے تھے۔
کچھ مورخین کے مطابق یہ شمالی افریقہ سے نقل مکانی کر کے وسط ایشیا میں آباد ہوئے اور یہاں کھیتی باڑی کے طور طریقے رائج کیے۔ انہیں ہی کھیتی باڑی کی بنیاد رکھنے والا بھی کہا جاتا ہے۔
واللہ اعلم
مٹی کے ظروف کا آغاز سومیری قوم کے باشندوں نے کیا۔ جو سندھ کے کھنڈرات میں ملنے والے ظروف جیسے ہی ہیں۔ یا تو ان کی تجارت سندھ تک پھیلی ہوئی تھی یا پھر دوسرا اندازہ یہ ہے کہ سندھ کے لوگ بھی سومیری قوم ہی کے کسی قبیلے کی ایک شاخ تھے جو سندھ جا کر آباد ہوئے۔
سومیری علاقوں کے قبائل “فراتی اور عبیدی” جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دلدلی مٹی کو زرخیز بنا کر اس پر کاشتکاری کے طریقے نکالے۔ اون بننا اور چمڑے سے طرح طرح کی اشیاء بنانا بھی ان کا ہنر تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ دھاتی اشیاء بھی ان کے ایک اور فن میں شامل ہے۔
حضرت ادریس علیہ سلام کی عمر 365 برس تھی اور پھر وہ جنت میں سفر کر گئے۔ یا رحلت فرما گئے۔ یہ بحث پھر کبھی۔
اتنی عمر میں انہوں نے اپنی قوم کو بہترین تعلیم سے آراستہ کردیا تھا۔
مگر انسان خطا کا پتلا ہے اور راہ حق سے ہٹنے میں دیر نہیں کرتا۔
سمیری علاقے نہری اور ہتھروں کی تقسیم کے مطابق مختلف شہروں پر مشتمل تھے اور ہر شہر کے وسط میں دیوی اور دیوتا کا مندر ہوتا تھا۔

4183ء، آج سے اتنے برس پہلے حضرت ابراہیم علیہ سلام تشریف لائے۔ جنہیں 30 اقوام کے باپ کہا جاتا ہے۔ مگر اس وقت یہ سمیری وہ قوم نہیں رہی تھی۔
حالانکہ وہ بہت تعلیم یافتہ، ترقی یافتہ تھے۔ جیسے کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ ماہر ریاضیات و فلکیات بھی تھے۔۔۔
جی ماہر فلکیات!
ستاروں سے راستے جاننا اور سفر کرنا تو ایک طریقہ ہے۔ مگر ریاضیات کے اصولوں کے ساتھ آسمان کے راز جاننے کا علم انہی کے پاس تھا۔ اور نمبروں کے اس قدر ماہر ہو گئے تھے کہ اپنے علم سے آسمان اور زمین کے رازوں سے پردے اٹھانے لگے تھے۔
قرآن کریم میں واضح طور پر ہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔
انسان سمجھتا ہے کہ جو وہ جانتا ہے اس کا پیدا کرنے والا نعوذبااللہ نہیں جان پایا ہوگا۔ اور پھر خالق کی نفی کرنے لگتا ہے۔ اپنے ہی ہاتھ سے بت بنا کر اس کے آگے خود کو ذلیل کر لیتا ہے۔
بہت سی قیاس آرائیاں بھی ہیں اس بارے میں اور کئی واقعات مشہور ہیں جیسے کہ اس قوم کا بچہ بچہ اعداد کے ذریعے غیبی باتیں جان لیتا تھا۔ جب اس قوم پر عذاب کا وقت آیا تو جبرائیل علیہ سلام نے جاننے کی جستجو میں کھیلتے ہوئے بچوں سے سوال کیا کہ جانتے ہو جبرائیل علیہ سلام اس وقت کہاں ہوں گے اور ایک بچے نے زمین پر مٹی پہ ہی اعداد و شمار سے بتایا کہ آسمان پر تو نہیں ہیں۔ زمین پر کہیں دور بھی نہیں۔ جتنے نزدیک ہیں تو اس کا مطلب یا تو میں ہوں یا پھر آپ!
یہی واقعہ بعض جگہوں پر حضرت جبرائیل علیہ سلام کے بجائے موسی علیہ السلام کے نام سے بھی درج ہے۔ مگر اس کی کیا حقیقت ہے کوئی قابل ذکر حوالہ نہیں ملا۔
اسی علم میں اتنا بڑھ جانے کے باعث اس قوم کو تباہ کر دیا گیا کیونکہ وہ ان علوم کے پیچھے چل پڑی تھی جن کو ممنوعہ کہا گیا تھا۔ پچھلی قومیں قرآن کے مطابق آج سے کہیں ترقی یافتہ تھیں۔ سورہ روم میں ذکر ہے؛
قرآن فرماتا ہے”تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاو کیا اونچے ستونوں والے عادارم کے ساتھ،جن کے مانند(ترقی یافتہ)کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی ۔اور ثمود کے ساتھ جو وادی میں (اونچے اونچے گھر بنانے کے لیے ) چٹانیں تراشتے تھے۔ اور اہراموں ( پرامڈز) والے فرعون کے ساتھ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی”۔
اسی طرح قرین قیاس یہی ہے کہ سومیری قوم ہی وہ قوم تھی جو ایسے علوم میں ماہر ہونے لگی تھی جو غیب سے تعلق رکھتے تھے۔
سورہ نمل 65 کے مطابق؛
“کہہ دو نہیں جانتا (کوئی بھی ) جو آسمانوں اور زمین میں ہے غیب( کی بات) کو سوائے اللہ کے اور نہیں وہ شعور رکھتے (کہ) کب وہ اُٹھائے جائیں گے۔”
مگر سومیری قوم کے علم کو مٹی میں تو ملا دیا گیا تھا۔ اس کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوئی۔ انسان کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ ضرورت سے ذیادہ جاننے کی خواہش کو نہیں مار سکتا۔
1792ء میں فرانسیسی ماہر فلکیات پیئر جوزف ڈی بیچم نے عراق اور بابل کا دورہ کیا اور یہاں پر سومیریئن علم نجوم پر جو علم اکٹھا کیا وہ ایک ڈائری میں قلمبند کر لیا۔ اس کے موت کے بعد وہ ڈائری ائسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ کے ہاتھ لگی اور انہوں نے فوری طور پر اپنا مشن عراق بھیجا جہاں سے 5 بحری جہازوں میں 200 کے قریب تختیاں برطانیہ کے جائی جا رہی تھیں۔ مگر راستے میں بحری قزاقوں کے حملے کے باعث تمام علمی خزانہ دجلہ میں ڈوب گیا۔ اس واقعے کے بعد سلطنت عثمانیہ سے بھی مدد طلب کی گئی مگر نہ تو وہ تختیاں مل سکیں نہ ہی ان قزاقوں کا کچھ پتہ چلا۔ حالانکہ برطانیہ کے بعد فرانس اور پھر جاپانی بھی سرکرداں رہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاید ان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نازل ہونے والے صحیفے بھی تھے۔
فرقان قریشی کے ویلوگ کے مطابق شائد وہ قزاق ان تختیوں کو بچانے آئے تھے یا ان پر موجود علم سے دنیا کو بچانا چاہتے تھے۔
واللہ عالم
صدام حسین نے
Archaeology Restoration of Babylon
کے نام سے ایک عجائب گھر بنانے کس قصد کیا جہاں بابل کے ہینگنگ گارڈن، بخت نصر کے دو سو کمروں والے محل کے ساتھ ساتھ سومیری تختیوں کی ریپلیکا بنوا کر رکھا جانا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا۔
بابل کے تاریخی ورثے کی سائٹ پر امریکی فوجی کیمپ الفا بنایا گیا۔ اور پھر دو ہی برسوں میں اس سائیٹ اور لائبریری کو امریکی فوج نے بری طرح تباہ کیا۔ جتنے آرٹیفیکٹس اور پرانی تختیاں یہاں ملیں انہیں دھڑا دھڑ امریکہ بھجوایا گیا۔
اور پھر 2005ء میں اس تباہ شدہ حال میں سٹیٹ بورڈ آف ہیریٹیج عراق کے حوالے کردیا گیا۔
2011 میں ایک صحافی مریم موسی نے اس کے احوال بیان کیے۔ اس کے علاوہ برطانوی میوزئم کے ڈائریکٹر جون کرٹس نے بھی ایک تفصیلی رپورٹ میں امریکیوں کے ہاتھوں عراق کے تاریخی ورثے کی بری طرح تباہی کو بیان کیا گیا ہے۔ کیسے ایک مسلمان ملک کو دہشت گرد کہہ کر وہاں لوٹ مار کی اور ان کے علمی خزانے چرائے گئے۔
2006ء میں امریکی کرنل کولمین نے بیان دیا تھا کہ تاریخی ورثہ تباہ کرنے پر معافی چاہتے ہیں مگر کم سے کم امریکی فوج کی وجہ سے دوسرے لٹیرے تو چوری نہ کر سکے۔
اب اس بات کا کیا مطلب ہے۔ ایک گروہ چوری کرے یا ایک سے زائد، گھر تو تباہ و برباد ہو ہی گیا۔
سومیریئن کی علمی خزانے کا بہت حصہ جرمنی میں بھی پہنچا۔ مسلمان ممالک پر طرح طرح کے الزامات عائد کرکے ان کی تیل کی دولت ہو یا تاریخی ورثہ ہو یا علمی خزانے یا ہندستان کا کوہ نور ہی کیوں نہ ہو، مغرب نے بڑھ چڑھ کر ہاتھ صاف کیے ہیں۔
اب تک سب سے پرانی پتھر کی تختی جو پبلک کی گئی وہ 5500 سال پرانی بتائی جاتی ہے۔
بہت سی تختیاں آج تک بھی لوگوں کے سامنے پیش نہیں کی گئیں۔ جانے ان میں کتنا علم ہوگا اور انسان کے جاننے، سمجھنے کی صلاحیت کے مطابق ہے بھی یا نہیں۔
ناچیز نے کوشش کی کچھ روشنی ڈالنے کی مگر آپ جانتے ہی ہیں کہ تاریخ جتنی پرانی ہوتی ہے اتنے ہی ابہام ہوتے ہیں کہ کون سی بات یا کون سا حوالہ درست ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں