شفقت رسول قمر…فن اورشخصیت

کچھ لوگ مقدر کے سکندر ہوتے ہیں۔ جس شعبے میں بھی چلے جائیں کامیابی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ مٹی میں ہاتھ ڈالیں تو سونا بن جاتی ہے۔ وہ ایسے پارس ہوتے ہیں کہ جس سے چھو جائیں وہ سونا بن جاتا ہے۔ ان میں سے بعض لوگ ایک سے زیادہ شعبوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور تمام شعبوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اوکاڑا شہر میں مقیم شفقت رسول قمر بھی ایسا ہی قیمتی اور ہر فن مولا بندہ ہے۔ پنجابی زبان کا بہترین شاعر، اعلیٰ پائے کا کمپیئر اور سٹیج سیکریٹری، اپنے دور کا ہونہار کرکٹر اور فٹ بالر، دانشور، سیاسی شعور کا ادراک رکھنے والا مبصر، اعلیٰ پائے کا نعت خواں، سٹیج ڈراما کا رائٹر، منتظم، ڈائریکٹر اور اداکار۔ اس ایک بندے میں درجنوں خوبیاں ہیں۔ یہ سب شعبوں میں ماسٹر ہے۔
شفقت رسول قمر نے 4 دسمبر 1966 کو منڈی ہیرا سنگھ (موجودہ منڈی احمد آباد) میں معروف عالمِ دین مولوی محمد صدیق کے علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ پانچ سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کی والدہ محترمہ حاجن رحمت بی بی انتہائی نیک اور مشفق خاتون تھیں۔ان کی دانائی اور سگھڑاپے کی بنا پر شہر بھر کی خواتین گویا ان کی مرید تھیں۔ انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں اور ایک بیٹی کی باپ بن کر پرورش اور تربیت کی۔ تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے شفقت کے حصے میں بہت لاڈ اور پیار آیا۔ ماں تو گویا اس کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھی۔ صرف شفقت ہی نہیں اس کے دوستوں کی تربیت میں بھی شفقت کی والدہ کا بہت بڑا کردار ہے جنہیں وہ اپنی اولاد ہی کی طرح سمجھتی تھیں۔ شفقت رسول قمر نے پنجاب یونیورسٹی سے ریگولر طالب علم کے طور پر ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
شعروشاعری سے شغف زمانہ طالب علمی میں ہی ہو گیا تھا۔ 1982 میں ہم دوستوں نے ادارہ ادب و ثقافت کی بنیاد رکھی۔ شفقت نے اس ادارے کے پلیٹ فارم سے بطور نوجوان شاعر شہرت کی جانب سفر کا آغاز کیا اور 1985 میں صرف 19 سال کی عمر میں تن تنہا شہر میں ایک بہت بڑے مشاعرے کا کامیاب انعقاد کر کے سب کو حیران کر دیا۔ اس مشاعرے کی صدارت معروف شاعر و کالم نگار ظفر اقبال نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی وفاقی وزیر میاں یاسین وٹو تھے۔ اس یادگار مشاعرے میں ظہور حسین ظہور، فیض صحرائی، اقبال قیصر، صفدر اجمیری، سرور جاوی اور مسعود اوکاڑوی جیسے نامور شعرا نے بھی شرکت کر کے رونق بڑھائی تھی۔
شفقت رسول قمر نے عملی زندگی کے لےے شعبہ طب کا انتخاب کیا اور بی ڈی ایس میں داخلہ لے لیا۔ اس کا یہ سفر کامیابی سے جاری تھا کہ سیاست کے چسکے نے اس کے کیریئر کی سمت تبدیل کر دی۔ میاں یاسین وٹو اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو سے ذاتی تعلق بنا، ان کے جلسوں میں سٹیج سیکریٹری بنا، شہرت ملی تو وہ اپنا کیریئر قربان کرنے پر تل گیا۔ میں اس معاملے میں اس سے سنیئر تھا۔ اسے بڑا سمجھایا کہ اس کام کے لےے زندگی پڑی ہے پہلے اپنے کیریئر پر توجہ دو مگر اس نے ایک نہ مانی۔ نتیجہ ہمارے درمیان شدید لڑائی کی صورت میں نکلا۔ میں بہت دنوں اس سے ناراض رہا مگر آخرِ کار صلح کرنا پڑی۔ میاں منظور احمد وٹو نے شفقت کی وفاﺅں کا صلہ دینے میں بخیلی سے کام نہیں لیا۔ انہوں نے اسے ایک بہت بڑا افسر لگوا دیا۔ شفقت نوجوان بھی تھا، جوشیلا بھی تھا اور اسے بڑے لوگوں سے ڈائریکٹ رابطے کا زعم بھی تھا۔ تب یہ سیاسی چالبازیوں سے بھی ناواقف تھا۔ یہ غلطی کر بیٹھا۔ جوائن کرنے سے پہلے ہی ایک ”سیاسی وڈیرے“ کو اس نے خوشی خوشی اپنی ”افسری“ کے بارے میں بتا کر داد چاہی جس نے اسے مایوس نہیں کیا مگر شفقت جونہی اس کے ڈیرے سے رخصت ہوا، اپنی افسری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ ورنہ آج یہ کم از کم گریڈ 21 یا 22 میں ہوتا۔ تب یہ بہت مایوس ہوا اور اس نے فی البدیہہ ایک غزل کہی تھی۔
ہر تھاں رولے پَے گئے نیں
گل رہی ہُن گُجھی نہیں
چُوری کھاون والے نوں
ساڈی روٹی پُجّی نہیں
بطور پنجابی شاعر شفقت رسول قمر نے جوانی میں ہی اپنا سکہ منوا لیا تھا۔ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شعر کہتا تھا۔ معروف کمپیئر طارق عزیز اور مسرور انور کے استاد سابق مصلح زبان ریڈیو پاکستان کراچی جناب شمس زبیری کی مشورے پر اس نے صرف پنجابی زبان کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اس نے کئی یادگار پنجابی مشاعرے کروائے۔
شفقت کو اپنی والدہ سے بے پناہ عقیدت تھی۔ اپنی کتاب ”چن چناں دے معاملے“ کا انتساب بھی اس نے اپنی ”ماں جی حاجن رحمت بی بی“ کے نام کیا ہے۔
میرے ویہڑے خوشیاں جھومبر پاندیاں نیں
خوف بلاواں ویکھ مینوں گھبراندیاں نیں
میں کوئی بوہتے وِرد وظیفے نہیں کردا
میرے نال دعاواں میری ماں دیاں نیں
شفقت کے لےے ماں ہی اس کا کل سرمایہ تھی۔ پیار تو سب کو ہی ماں سے ہوتا ہے۔ شفقت تو ماں کا پجاری تھا۔ ماں کی ناراضی سے بہت ڈرتا تھا۔ یہ فخریہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے اپنی ماں کو کبھی ناراض نہیں کیا۔ جب 2009 میں ماں جی کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو شفقت پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ وہ ماں جس نے یتیمی کا کبھی احساس نہ ہونے دیا تھا اسے روتا بلکتا چھوڑ گئی۔ میں جب اس کے پاس پہنچا تو گلے لگ کر بچوں کی طرح دھاڑیں مارنے لگا۔ مجھے آج بھی اس کے الفاظ نہیں بھولے۔ کہنے لگا۔
”رفیع! جے رب نے کھوہ لینی ہوندی اے تے ماں دیندا ای کیوں اے“؟ اسے تسلی دینے کی بجائے میں بھی دھاڑیں مارنے لگ پڑا تھا۔ پھر ہم ماں جی کی باتیں کرنے بیٹھ گئے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور کہہ رہا تھا۔
ساتھوں ہوئیاں کہڑیاں خطاواں مائے رانیئے
مَلّیاں نی دور جا کے تھانواں مائے میریئے
خیریں جاویں بچہ! رب عرشاں دے بھاگ لاوی
کِنّہے ہُن دینیاں دعاواں ماے میریئے
شفقت رسول قمر کی شاعری میں انسانیت کا درد انسانوں سے محبت جگہ جگہ نظر آتی ہے۔
ہور بھاویں جو مرضی کر لئیں
نیواں نا انسان کریں !!!
وزیرِ اعلیٰ آفس میں بڑی ذمہ دار پوسٹ پر کام کے دوران اس نے انسانوں کے بہت سے روپ دیکھے۔ انسان نما فرعونوں سے بھی اس کا واسطہ پڑا اور بڑے عہدوں پر فائز فقیر منش انسانوں کو بھی اس نے قریب سے دیکھا۔ وہ عہدوں، جاہ اور منصب کی بے ثباتی کا بار بار ذکر کرتا نظر آتا ہے۔
گدی بیٹھے فقیراں دے بال ویکھے
کدھرے بادشاہ ہوندے کنگال ویکھے
شفقت کو اپنا شہر، سجن بیلی، اپنی گلیاں، خالص دیہاتی ماحول چھوڑ کر نوکری کے لےے شہر جانا پڑا تو اداس ہو گیا۔ جاتے سمے وہ بہت افسردہ تھا۔
مجبوری سی نہیں تے وچ بہاراں دے
چھڈ کے اپنا گھر جاوے کوئی چاہندا سی؟
وہ مقدرات پر یقین رکھنے والا شخص ہے۔ اسی لےے مقدر کا گلہ بھی کرتا ہے اور نارسائی کا شاکی بھی ہے۔ وہ دعاﺅں کی نامقبولیت کی دہائی دیتا بھی نظر آتا ہے۔
ربا! عرش تیر ہویا ہور اُچا
میرے لباں تے جدوں دعا آ گئی
نانک دکھیا سب سنسار یا بابا فرید کے بقول اچا چڑھ کے ویکھیا گھر گھر ایہا اگ کی طرح وہ بھی اپنی طرح ساری دنیا کو دکھی دیکھتا ہے۔ اس کے اندر کا موسم اداس ہوتا ہے تو اسے چاروں طرف اداسی نظر آتی ہے۔
ربّا! مینوں تیرے ایس جہان دے وچ
سارے لوکی غم دے مارے لگدے نیں
وہ آج کل کے بازاری عشق سے بھی تنگ ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ آج کل پہلی نظر میں محبت والا دور نہیں رہا۔ لوگ پریکٹیکل ہو گئے ہیں۔ محبت بھی جیب دیکھ کر کی جاتی ہے۔
جی بَھیڑا جیہا کر کے مُڑنا پَیندا اے
عشق بازار جے جیبوں خالی جانا واں
شفقت کا سیاسی شعور بہت گہرا ہے۔ وہ معاشرتی ناانصافیوں اور محروم طبقے کی نارسائیوں پر نوحہ کناں ہو جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے جاری ملکی حالات اور اس کے نتیجے میں بے پناہ مہنگائی نے اسے اندر سے دکھی کر دیا ہے۔
ہر پاسے پیّاں بُھکّاں نچن
خورے گئی خوشحالی کتھے؟
گالھڑ آ پردھان بنے نیں
ٹُر گئے باغ دے مالی کتھے؟
شفقت نے اوکاڑا جیسے مردم خیز شہر میں ڈیرے لگا رکھے ہیں جہاں آفیسر کالونی میں اس کی رہائش گاہ ادبی کہکشاں بنی ہوئی ہے۔ جس کے نمایاں ستاروں میں مسعود اوکاڑوی، سخن ور نجمی، علی اکبر ناطق، کاشف مجید، املاک جدران، فضل احمد خسرو شامل ہیں۔ شفقت رسول قمر اوکاڑا کے ادبی افق کا قطبی تارا بنا ہوا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں