انسان، پہچان اور معاشرہ

جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کا نام اُس وقت رکھا جاتا ہے جب وہ اپنی پیدائش سے بھی واقف نہیں ہوتا۔ خاندان میں سب کی فرمائش پہ ایک نام اُسے دے دیا جاتا ہے۔ پھر جیسے جیسے زندگی کے ایام گزرتے جاتے ہیں وہ بچہ بھی بڑا ہوتا جاتا ہے۔ پیدائش کے چند سال بعد بچے کو اسکول بھیج دیا جاتا۔ جو پہچان کا پہلا مرحلہ ہے، جب پہچان دُنیا کہ سامنے آنے لگتی ہے۔ بچے کے اسکول کے معیار سے بچے کا معیار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ بچہ کسی اچھے اور زیادہ فیس والے ادارے میں پڑھتا ہو تو اُس کی پہچان کا اندازہ اچھے الفاظ میں لگایا جاتا ہے۔ اور بچہ اگر کسی سرکاری یا کم فیس والے اسکول میں پڑھتا ہو تو اُس کی پہچان کے اندازے لوگ کسی اور پیمانے سے لگاتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ اپنی پہچان انسان خود بناتا ہے حلانکہ یہی لوگ اُس انسان کی پہچان بچپن میں ہی بنا چُکے ہوتے ہیں احساسِ کمتری اور برتری کا احساس بچپن سے ہی انسان کے دماغ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اور بچپن سے ہی انسان کوذہنی مریض بنا دیا جاتا ہے۔ بچپن سے ہی دماغ میں بیٹھی ہوئی یہ باتیں تا حیات انسان کے ساتھ چلتی ہیں۔
پھر ایک مرحلہ آتا ہے جوانی کا۔ پہچان بنانے کا یہ دوسرا مرحلہ ہوتا ہے جوانی میں کچھ لوگ امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس وقت بھی زمانہ اُنہی کو پوج رہا ہوتا ہے. ہمارے معاشرے میں یہ چیز عام ہے کہ امیر نوجوانوں کی غیر اخلاقی سرگرمیوں پر بھی اُنہیں سراہا جا رہا ہوتا ہے۔ سگریٹ اگر کوئی غریب نوجوان پی رہا ہو تو کہا جاتا ہے کہ نشئی ہے مزدوری کرتا تھوڑا بہت کماتا اور آوارہ ہے۔ وہی سگریٹ اگر کوئی امیر نوجوان پی رہا ہو تو واہ واہ بولا جاتا ہے کہ کیا اسٹائل ہے، کیا انداز ہے، رئیس ہے، امیری چھلکتی ہے جناب کے انداز سے۔ حلانکہ وہ جوان غریب مزدور جوان جتنا بھی نہیں کما رہا ہوتا اور صرف اُس کی خوش قسمتی یہ ہوتی ہے کہ وہ امیر گھرانے میں پیدا ہوا ہوتا ہے۔ غریب کی اولاد غلط کام کرے تو اُسے بدتمیزی جبکہ امیر کی اولاد غلط کام کرے تو اُسے شوق کا نام دیا جاتا ہے۔ غریب نوجوان سڑکوں پہ بلا وجہ گھومے تو اُسے آوارہ کہا جاتا ہے جبکہ امیر نوجوان سڑکوں پہ گھومے تو اُسے سیٹھ/جناب کا مشغلہ سمجھ کر سراہا جاتا ہے۔ اگر کوئی غریب نوجوان محنتی بھی ہو مگر اُس کا اوڑھنا پہننا اچھا نا ہو تو لوگ اُسے کُچھ سمجھتے ہی نہیں اس کے برعکس اگر آوارہ امیر نوجوان اچھے اور عمدہ لباس میں ملبوس ہو تو اُسے ٹھاٹ باٹھ والا نوجوان مانا جاتا ہے۔ یہ ہے معاشرے کی پرکھ کے لحاظ سے نوجوانوں کی پہچان۔
معاشرے کی نظر میں اگلی پہچان شادی کی عمر تک پہنچنے کے بعد بنتی ہے۔ زیادہ تر لوگ رشتہ جوڑتے وقت امیری اور غریبی کے ترازو میں رشتے کو تولتے ہیں۔ رشتہ جوڑتے وقت زیادہ تر لوگوں کا دھیان ہوتا ہے کہ جہاں رشتہ طے پا رہا ہے وہ گھرانا امیر ہو۔ اکثر محنتی، سمجھدار، لوگوں کے گھر میں رشتہ نا ملنے کی وجہ بھی اُن کی غربت ہوتی ہے. یہاں بھی معاشرہ انسان کی پہچان کا اندازہ خود کے بنائے ہوئے بناوٹی اصولوں کے زریعے لگا ہی لیتا ہے ۔ جب انسان والدین کی جگہ پہنچتا ہے تو اُس وقت بھی معاشرے میں زیادہ تر لوگ اُن کی پہچان اسی اندازے سے لگاتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو کھِلا کیا رہا ہے، بچوں کو پڑھا کس ادارے میں رہا ہے، اور بچوں کو کس طرح کے کپڑے خرید کر دے رہا ہے۔ بچوں کی عیاشیوں پہ کتنا پیسا خرچ کر رہا ہے اور بچوں کو خرچ کرنے کے لیے کتنے پیسے دیتا ہے۔
ایسی ہی پہچان لے کر انسان ایک دن بڑھاہے کی عمر کو جا پہنچتا ہے۔ انسان کی زندگی کے اس مرحلے میں بھی لوگ اندازے لگانے سے باز نہیں آتے اور اس عمر میں بھی انسان کے لباس، خوراک، شوق سے لوگ اُس کی پہچان کا اندازہ خود سے لگا لیتے ہیں۔
یہ ہیں ہمارے معاشرے کے اندازے ایک انسان کی پہچان کے حوالے سے۔ ان سب باتوں کو جاننے کے بعد ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پہچان بنانے میں انسان کا اپنا کمال ہوتا ہے۔ ارے! نہیں یہ معاشرہ بھی انسان کی پہچان خود سے تجویز کر لیتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں